Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم نے ایک کو ڈھیروں مال دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو، کیا تم بہتان لگا کر اور کھلی ہوئی حق تلفی کر کے اس کو لوگے ؟
تفسیر آیت 21۔۔ 22 وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ۭ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۔ وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۔ قنطار کا مفہوم : قنطار۔ اصل میں تو ایک وزن ہے جس کی مقدار زمانے کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہی ہے لیکن عام استعمال میں اس سے مراد مال کثیر ہوتا ہے۔ جیسے ہم منوں مال، ڈھیروں مال، بولتے ہیں، عربی میں اسی مفہوم کی تعبیر کے لیے یہ لفظ ہے۔ اسی سے قناطیر مقنطرۃ کی ترکیب بھی قرآن میں استعمال ہوئی ہے۔ فْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ کا مفہوم : فْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ ، افضی فلان الی فلان کے معنی ہیں وصل الیہ و دخل فی حیزہ۔ اس طرح افضی الی فلان بسرہ کے معنی ہیں، اس نے فلاں کے آگے اپنے سارے بھید بےنقاب کردئیے۔ یہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی نہایت جامع اور نہایت شائستہ تعبیر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح بےنقاب ہوجاتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن اور احساسات و جذبات کا کوئی گوشہ اور کوئی پہلو ایک دوسرے سے مخفی نہیں رہا جاتا۔ بیوی دیا ہوا مال واپس لینا فتوّت کے منافی ہے : اوپر کی آیت میں بتایا تھا کہ با وجود اعلی طریقہ یہی ہے کہ آدمی بیوی کے ساتھ شائستہ طریقے پر نباہنے کی کوشش کرے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی شخص اپنے حالات کے تقاضوں سے اگر اس فیصلہ پر پہنچ ہی گیا ہے کہ ایک بیوی کو چھوڑ کر کسی دوسری عورت سے شادی کرے تو یہ تو بہرحال وہ نہ کرے کہ جو کچھ پہلی بیوی کو اس نے دیا ہے اس کو واپس لینے کی کوشش کرے۔ یہاں تک کہ اگر اس کو ڈھیروں مال بھی اس نے دیا ہے جب بھی اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے واپس لینے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرے۔ خاص کر اس خیال سے اس پر بہتان لگانا کہ اس سے دیا ہوا مال واپس لینے کے لیے جواز پیدا ہوسکے اور بھی بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ مرد کی فتوت کے بالکل منافی ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے زندگی بھر کا پیمانِ وفا باندھا، جو ایک نہایت مضبوط میثاق کے تحت اس کے حبالہ عقد میں آئی، جس نے اپنا سب ظاہر و باطن اس کے لیے بےنقاب کردیا اور دونوں نے ایک مدت تک یک جان و دو قالب ہو کر زندگی گزاری، اس سے جب جدائی کی نوبت آئے تو اپنا کھلایا پہنایا اس سے اگلوانے کی کوشش کی جائے یہاں تک کہ اس ذلیل غرض کے لیے اس کو بہتانوں اور تہمتوں کا ہدف بھی بنایا جائے۔ عہدِ نکاح ایک محکم میثاق ہے :۔ یہاں ایک اور چیز بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ فرمایا کہ وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا (اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط میثاق لیا ہے) ظاہر ہے کہ ”میثاق غلیظ“ سے مراد یہاں عقد نکاح ہی ہے۔ اس کے سوا کسی اور میثاق کا نہ یہاں کوئی قرینہ ہے نہ اس کی کوئی تاریخی شہادت۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقد نکاح کی ذمہ داوری کو یہاں ”میثاق غلیظ“ سے کیوں تعبیر فرمایا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ عقد نکاح کی اصلی عرفی اور شرعی حقیقت یہی ہے کہ وہ میاں بیوی کے درمیان حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک مضبوط معاہدہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دونوں زندگی بھر کے سنجوگ کے عزم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور دونوں یکساں طور پر حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اور یکساں طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور دونوں یکساں طور پر حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اور یکساں طور پر ایک دوسرے کے لیے ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں۔ بظاہر تو اس میثاق کے الفاظ نہایت سادہ اور مختصر ہوتے ہیں لیکن اس کے مضمرات و تضمنات بہت ہیں اور یہ مضمرات و تضمنات ہر مہذب سوسائٹی اور ہر شریعت میں معلوم و معروف ہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ میثاق بندھتا تو ہے میں اور بیوی کے درمیان لیکن اس میں گرہ خدا کے حکم سے لگتی ہے اور جس طرح کلق اس کی گواہ ہوتی ہے اسی طرح خالق بھی اس کا گواہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے میثاق غلیظ ہونے میں کیا شبہ رہا ؟ یہاں اس رشتے کو اس لفظ سے تعبیر فرما کر قرآن نے اس کی اصلی عظمت واضح فرمائی ہے کہ مرد کو کسی حال میں بھی یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ بیوی کے ساتھ اس کا تعلق کچے دھاگے سے نہیں بندھا ہے بلکہ یہ رشتہ نہایت محکم رشتہ ہے اور اس کے تحت جس طرح مرد کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں جن سے مرد کے لیے فرار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر وہ ان سے بھاگنے کی کوشش کرے گا تو اپنی فتوت کو بھی رسوا کرے گا اور اپنے خدا کو بھی ناراض کرے گا۔
Top