Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والو، اپنے مال آپس میں باطل ذریعے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضامندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہوجائے اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے
فصل 14۔ آیات 29۔۔۔ 33 کا مضمون :۔ سابقہ آیات میں ضمنی تذکیر و تنبیہ کے بعد اب ان آیات میں اصلاح معاشرہ ہی سے متعلق احکام و ہدایات کا مضمون پھر شروع ہوگیا اور چند ایسی ہدایات دی گئی ہیں جن سے پچھلی اصلاحات کی تائید و توثیق بھی ہو رہی ہے اور ان اصلاحات کا دائرہ وسیع بھی ہو رہا ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۔ حرمتِ مال اور حرمت جان میں نہایت گہرا رشتہ ہے :۔ اس آیت میں باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور قتل نفس کو حرام ٹھہرایا ہے اور ان دونوں حرمتوں کو ایک ساتھ جمع کردیا ہے۔ ان کو ایک ساتھ جمع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ان دونوں میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ مال کی حرص اس کے حصول کے جائز و ناجائز طریقوں کی تمیز اٹھا دیتی ہے اور پھر یہ بیماری لوگوں کو اس طرح اندھا کردیتی ہے کہ اس کے لیے قتل و خون تک نوبت آجاتا ہے۔ سماجی فسادات اور خون ریزیوں کے اسباب کا سراغ لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ حرص مال کو ان میں سب سے زیادہ دخل ہے۔ اسلام نے ان دونوں چیزوں کے اس گہرے باہمی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مال اور ایک دوسرے کی جان دونوں چیزوں کی حرمت کی یکساں تاکید فرمائی ہے حرمۃ مالہ کحرمۃ دمہ (مومن کا مال بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح اس کی جان محترم ہے) کسی معاملت کے لیے فریقین کی حقیقی نیاز مندی شرط ہے :۔ باطل طریقہ سے مراد لین دین، کاروبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں معاملت کے دونوں فریقوں کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک کا مفاد محفوظ ہوتا ہے، دوسرا ضرر یا غرر کا ہدف بنتا ہے۔ قرآن نے اس مفہوم کی طرف خود اشارہ فرمادیا ہے۔ چناچہ باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے کی نہی کے بعد یہ جو فرمایا ہے کہ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ، یہ مثبت پہلو سے اسی اجمال کی وضاحت ہے جو پہلے ٹکڑے میں پایا جاتا ہے۔ اس ٹکڑے نے واضح کردیا کہ معاملت اور لین دین کی بنیاد جب حقیقی باہمی رضامنید پر ہو تب ہی اس سے جو منافع ہوتا ہے وہ جائز ہوتا ہے اور اگر اس میں کوئی دھوکا پایا جاتا ہے یا اس میں ایک فریق کی بےبسی اور مجبوری کو دخل ہے تو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہو لیکن یہ اکل اموال بالباطل کے حکم میں داخل ہے۔ اسی بنا پر معاملت اور تجارت کی وہ تمام شکلیں اسلام میں ناجائز قرار پائیں جن میں ضرر یا غرر کا شائبہ ہے۔ ربوا اس کاروبار کی ایک قبیح ترین شکل ہے۔ بقرہ کی تفسیر میں ربوا اور تجارت کے فرق پر ہم جو بحث لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ کا مفہوم : َلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ بالکل لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل کا ہم وزن ٹکڑا ہے یعنی نہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرو نہ ایک دوسرے کو قتل کرو۔ اس کے معنی خود کشی کے لینے کا نہ کوئی موقع و محل یہاں ہے نہ ان الفاظ میں اس مفہوم کی کوئی گنجائش ہے۔ اگر خود کشی کے مفہوم کو ادا کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے اسلوب بالکل مختلف ہوگا۔ انفسکم کا لفظ اس حقیقت کے اظہار ہوتا ہے اس لیے کہ معاشرہ کے تمام افراد اپنے ہی بھائی بند ہیں، المسلم اخوا المسلم اور المسلمون کلہم اخوۃ، کے اصول پر ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے ایک کے قاتل کو سب کا قاتل قرار دیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۔ خدا کی صفت رحمت کے تقاضے :۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا درحقیقت علت بیان ہوئی ہے ان ممانعتوں کی جن کا ذکر اوپر ہوا۔ یعنی جب تمہارا رب تمہارے اوپر مہربان اور رحیم ہے تو وہ کس طرح یہ پسند کرسکتا ہے کہ تم ایک دوسرے کے مال ہڑپ کرو اور ایک دوسرے کو قتل کرو، رؤوف و رحیم رب تو یہی چاہے گا کہ تم آپس میں رحماء بینہم بن کر رہو۔ پھر یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ اگر اس کے برخلاف لوگ آپس میں ظلم وعدوان کے مرتکب ہوں تو یہ عین اس کی رافت و رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ وہ عدل و انصاف کا ایک ایسا دن لائے جس میں ان لوگوں کو کیفر کردار کو پہنچائے جو اس کے مرتکب ہوئے ہوں۔ چناچہ آگے والی آیت اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
Top