Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں جھاڑ دیں گے اور تمہیں ایک عزت کے مقام میں داخل کریں گے
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا۔ کبائر اور صغائر سے مراد :۔ سیئات کا لفظ چونکہ یہاں کبائر کے مقابل میں آیا ہے اس وجہ سے اس سے مراد صغائر یعنی چھوٹے گناہ ہیں جس طرح نیکیاں جن کا حکم دیا گیا ہے، بڑی بھی ہیں اور چھوٹی بھی، اسی طرح بدیاں، جن سے روکا گیا ہے، چھوٹی بھی ہیں بڑی بھی، یہ چھوٹا اور بڑا ہونا اگرچہ حالات اور نسبتوں کے بدلنے سے تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے اس وجہ سے ان کی منطقی حد بندی ذرا مشکل ہے تاہم یہ ایسی چیز نہیں جس کا سمجھنا دشوار ہو۔ جس طرح ہجرت اور جہاد بھی نیکی ہے اور راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا بھی نیکی ہے لیکن دونوں میں بڑا فرق ہے اور اس فرق کو ہر شخص سمجھتا ہے، اسی طرح کسی کا گھر لوٹ لینا بھی برائی ہے اور راستے میں کوئی گندی چیز پھینک دینا اور کسی غلط جگہ تھوک دینا بھی برائی ہے لیکن دونوں برائیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اس فرق کو بھی ہر شخص سمجھتا ہے۔ درحقیقت نیکیوں اور بدیوں دونوں کی بڑائی چھٹٓئی کے ناپنے کے لیے پیمانہ ان کے اثرات و نتائج ہیں اگر ہماری نگاہ دور رس ہو اور ہم خواہشات نفس کی جانبداری سے بالا تر ہو کر حقائق پر غور کریں تو اس کے سمجھنے میں کوئی التباس پیش نہیں آسکتا۔ لیکن بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ عقل پر خواہشات نفس کا ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ پر بت رائی بن جاتا ہے رائی ربت۔ شریعت نے اس التباس سے بچنے کے لیے حرام بھی واضح کردئیے اور حلال بھی۔ لیکن ان کے درمیان کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں التباس پیش آسکتا ہے۔ ایسی چیزوں کے باب میں تقوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آدمی احتیاط کے پہلو کو اختیار کرے لیکن اگر بشری کمزوری سے کوئی غلطی صادر ہوگئی تو حدود حرام و حلال کے ملحوظ رکھنے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ اس کا میل جمنے نہیں دیتا۔ جنت کی راہ :۔ اس آیت میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ خدائی گرفت سے بچنے اور اس کی جنت میں داخل ہونے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو بڑی فراخ دلی سے الاؤنس دیتے چلو بلکہ اس کا راستہ یہ ہے کہ جن چیزوں سے انس نے روکا ہے ان کے کبائر سے پرہیز رکھو۔ اگر کبائر سے پرہیز رکھو گے تو صغائر کو وہ اپنے فضل و رحمت سے خود دور فرما دے گا ورنہ کبائر و صغائر سب تمہارے اعمال نامے میں درج ہوں گے اور سب کا تمہیں حساب دینا ہوگا۔ صغائر سے بچنے کی راہ بھی کبائر سے اجتناب ہے :۔ یہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صغائر سے بچنے کی راہ بھی یہی ہے کہ آدمی کبائر سے اجتناب کرے۔ جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے چکاتا رہتا ہے۔ وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ کسی کے پانچ روپے دبا کرنا دہند کہلانے کی ذلت گوارا کرے۔ برعکس اس کے جو لوگ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں ان کا حال زندگی بھر یہ رہتا ہے کہ مچھر کو چھانتے رہتے ہیں اور اونٹ کو نگلتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو تو یہ زیر ہے اور سونف تک کی زکوۃ کا حساب سمجھاتے ہیں لیکن خود یتیموں کے مال اور اوقاف ج کی آمدنیوں سے اپنی کوٹھیاں بنواتے اور ان کو سجاتے ہیں۔
Top