Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور ولادین، قرابت مند، یتیم، مسکین، قرابت دار پڑوسی، بیگانہ پڑوسی، ہم نشین، مسافر اور اپنے مملوک کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اللہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
آگلی آیات 36 تا 43 کا مضمون : اب آگے یہ خاتمہ باب کی آیات ہیں۔ معاشرتی احکام و ہدایات کا سلسلہ جو شروع سے چلا آرہا تھا وہ ان آیات پر ختم ہو رہا ہے جس طرح اللہ سے ڈرتے رہنے کی ہدایت سے اس باب کا آغاز فرمایا تھا اسی طرح اللہ کی عبادت کرتے رہنے کی ہدایت پر اس کو ختم کیا۔ اللہ تعالیٰ کا حق سب سے بڑا ہے۔ جو لوگ اس حق کو کما حقہ ادا کرتے رہیں گے درحقیقت وہی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق پائیں گے۔ چناچہ اس حق کی یاد دہانی کے بعد بالاجمال والدین، اقربا، یتامی، مساکین، پڑوسی، مسافر اور لونڈی غلام سب کے حقوق کی یاد دہانی فرما دی۔ اللہ کا حق اس کی عبادت ہے اور اس کو باطل کرنے والی چیز شرک ہے اس وجہ سے اس حق کی یاد دہانی کے ساتھ شرک کی نفی کردی۔ بندوں کا سب سے بڑا حق ان کے ساتھ احسان اور ان کے لیے انفاق ہے۔ بخل، تکبر اور ریا اس کے ہادم ہیں اس وجہ سے احسان وا نفاق کی تاکید کے ساتھ ان چیزوں کی نفی کردی۔ اس کے بعد انفاق کی حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا کہ یہ سودا خسارے کا سودا نہیں۔ جو ایک خرچ کرے گا، دس پائے گا۔ پھر تنبیہ فرما دی کہ اس رسول کے ذریعے سے انذار و تبلیغ کا حق ادا ہوچکا ہے، جو اب بھی نہیں سنیں گے وہ سوچ لیں کہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جس دن اللہ سب رسولوں کو ان کی امتوں پر گواہ ٹھہرا کر پوچھے گا کہ تم نے اپنی اپنی امتوں کو کیا دعوت دی اور انہوں نے کیا جواب دیا۔ پھر یہی سوال اس آخری امت کے متعلق اس آخری رسول سے بھی ہوگا۔ وہ دن ایسا ہوگا کہ نہ کسی کے لیے کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ کوئی شخص کوئی بات چھپا سکے گا۔ آخر میں اللہ کی عبادت، جس کا ذکر اوپر والی آیت میں گزرا، کے سب سے بڑے مظہر، نماز کے بعض آداب و شرائط کا ذکر فرمایا۔ ان آداب و شرائط کے ذکر سے مقصود نماز کو اسی طرح مفسدات سے پاک کرنا ہے جس طرح اوپر انفاق کو اس کے موانع و مفسدات سے پاک کیا ہے۔ اب اس روشنی میں آیت 36 تا 43 کی تلاوت فرمائیے۔ وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَا بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا میں ’ ب ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ یہاں احسان کا لفظ ’ بر ‘ کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ احسان ادائے حقوق کے ساتھ ہو۔ محض چھدا اتارنے کی کوشش نہ ہو۔ ’ ب ‘ کا استعمال لفظ ’ بر ‘ کے ساتھ ہی مناسبت رکھتا ہے۔ چناچہ سورة مریم میں ہے ”وبرا بوالدیہ ولم یکن جبارا عصیا : اور اپنے والدین کا فرماں بردار تھا، سرکش اور نافرمان نہ تھا“۔ اردو ترجمے میں اس طرح کے اسالیب کے ترجمے کا حق مشکل ہی سے ادا ہوتا ہے۔ پڑوسی کی تین قسمیں : ’ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى‘ یعنی پڑوسی بھی ہے اور اس کے ساتھ رشتہ داری کا بھی تعلق ہے۔ ’ الْجَارِ الْجُنُبِ ‘ جُنُب کے معنی اجنبی کے ہیں یعنی پڑوسی ہے لیکن رشتہ داری اور قرابت کا تعلق اس کے ساتھ نہیں ہے۔ ’ الصَّاحِبِ بِالْجَـنْبِ ‘ ’ جَنْب ‘ کے معنی پہلو کے ہیں، جو شخص وقتی اور عارضی طور پر بھی کسی مجلس، کسی حلقے، کسی سواری، کسی دکان، کسی ہوٹل میں آپ کا ہم نشین و ہم رکاب ہوجائے، وہ ’ الصاحب بالجنب ‘ ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ان تینوں قسم کے لوگوں کو ایک دوسرے پر حقوق جوار حاصل ہوجاتے ہیں۔ خدا کا حق سب سے بڑا ہے : ان آیات میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے کہ خالق ومالک اور رب ہونے کی وجہ سے اس کا حق سب سے بڑا ہے اور اسی حق کی ادائیگی پر دوسرے حقوق کی ادائیگی کا انحصار ہے۔ جو لوگ خدا کا حق ادا نہیں کرتے وہ دوسروں کے حقوق بھی صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق نہیں پاتے۔ خدا کا حق عبادت ہے اور ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ عبادت میں پرستش اور اطاعت دونوں چیزیں شامل ہیں۔ اس عبادت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اس لیے کہ خدا کی خدائی میں کوئی دوسرا ساجھی نہیں ہے۔ اگر اس حق میں کسی دوسرے کو شریک کردیا جائے تو یہ عبادت باطل ہو کر رہ جاتی ہے۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے : خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لیے کہ اللہ انہی کو آدمی کے وجود میں آنے اور اس کی پرورش کا ذریعہ بناتا ہے۔ لیکن ان کا حق عبادت نہیں بلکہ برّ و احسان ہے۔ اس کے بعد قرابت مندوں کے حقوق ہیں جو درحقیقت اسی حق سے پیدا ہوتے ہیں۔ قرابت مندوں، مساکین، اور پڑوسیوں کے حقوق : پھر یتامی، مساکین اور پڑوسیوں کے حقوق ہیں۔ پڑوسی تین طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو پڑوسی بھی ہے اور قرابت مند بھی، دوسرا وہ جو پڑوسی تو ہے اگرچہ قرابت مند نہیں ہے، تیسرا وہ جو وقتی طور پر کسی سفر یا حضر میں ساتھی اور ہم نشین بن گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ احسان کی ہدایت ہوئی۔ پھر مسافر اور غلاموں اور لونڈیوں کا ذکر ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کے متعلق ہم ذکر کرچکے ہیں کہ غلامی، اسلام کے نظام کا کوئی جزو نہیں ہے اسلام نے وقت کے بین الاقوامی حالات کے تحت اس کو گوارا کیا تھا اور خود اپنے نظام میں غلاموں کی ترقی و بہبود کی ایسی شکلیں تجویز کردی تھیں جن سے وہ بالتدریج اسلامی معاشرے میں مساوی درجے کے رکن بن جائیں۔ اس آیت میں ان کو بھی احسان کے مستحقوں میں شامل کیا ہے اور مقصود اس سے یہی ہے کہ ان کے متعلق لوگوں کا زاویہ نگاہ بدلے اور لوگ نیکی اور احسان کے مواقع میں ان کی اصلاح و ترقی کو ایک مستقل مسئلے کی حیثیت سے پیش نظر رکھیں۔ ادائے حقوق کے منافی ذہنیت : اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَا۔ یہ ادائے حقوق اور احسان کے منافی ذہنیت کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اسباب ووسائل کی فراوانی کو اللہ کا انعام و احسان سمجھتے ہیں ان کے اندر تو شکر گزاری اور تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے اور یہ جذبہ ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا ہے اسی طرح یہ دوسروں پر احسان کریں چناچہ وہ لوگوں پر احسان کرتے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے سزوار بنتے ہیں۔ برعکس اس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو خود اپنی قوت و قابلیت اور اپنی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر تواضع اور شکر گزاری کے جذبے کے بجائے گھمنڈ اور فخر پیدا ہوجاتا ہے اور وہ لوگوں پر احسان کرنے کے بجائے ان پر دھونس اور رعبت جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ناشکروں اور کم ظرفوں کو دوست نہیں رکھتا۔ ”دوست نہیں رکھتا“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔
Top