Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ کھو بیٹھو !
اگلی آیات 44 تا 57 کا مضمون : آیت 43 پر، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں، اصلاح معاشرہ سے متعلق احکام کا باب ختم ہوگیا۔ آگے اس رد عمل کا بیان آ رہا ہے جو ان اصلاحات کے مخالفین کی طرف سے ظاہر ہوا اور ساتھ ہی مسلمانوں کو ایک عظیم ملکت کی بشارت سنائی جا رہی ہے جو معاشرہ کے بلوغ اور کمال کا قدرتی نتیجہ ہے۔ مخالفین میں سب سے پہلے یہود کو لیا اس لیے کہ حامل کتاب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ انہی کو ان اصلاح کا حامی ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ مخالفت انہی کی طرف سے ہوئی۔ چناچہ ان کی مخالفانہ شرارتوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کو براہ راست خطاب کر کے دھمکی دی کہ اے اہل کتاب، اگر تم اس کتاب پر ایمان نہ لائے تو یاد رکھو کہ تمہارے لیے وقت آگیا ہے کہ اصحاب سبت کی طرح تم پر لعنت کردی جائے اور تمہارے چہرے مسخ کردیے جائیں۔ اس کے بعد یہود کے بعض مشرکانہ اعمال و عقائد اور ان کے اس زعم پر ان کو سرزنش کی ہے کہ یہ اپنے آپ کو ایک برگزیدہ امت سمجھے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خواہ کچھ ہوں، یہ خدا کے محبوبوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے بغیر کسی حساب کتاب کے جنت میں جا براجیں گے۔ فرمایا کہ ان کے اس زعم باطل نے، جو سر تا سر اللہ پر افترا ہے، ان کو ایمان و عمل کی ذمہ داریوں سے بالکل بےفکر کردیا ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو بندگی کے دائرے سے نکال کر الوہیت کے دائرہ میں شامل کر رکھا ہے۔ اس کے بعد اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک طرف تو تقدس اور برتری کا یہ ادعا ہے، دوسری طرف ذہنی اور اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ اہل کتاب ہو کر جبت و طاغوت پر ایمان رکھتے اور مسلمانوں کے خلاف حسد میں ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ کفار و مشرکین تک کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ حسد سے اندھے ہو رہے ہیں تو ہوجائیں، اب تو تقدیر الٰہی کا یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ اللہ اولاد اسماعیل کو کتاب و حکمت اور ایک عظیم خلافت کا وارث بنا کے رہے گا۔ اس کے بعد اولاد اسماعیل میں سے جن لوگوں نے یہ دعوت قبول کرلی تھی ان کی حوصلہ افزائی فرمائی اور جو لوگ اس کی مخالفت پر اڑے ہوئے تھے ان کو آخرت کے عذاب کی دھمکی دی۔ اس روشنی میں ان آیات کی تلاوت فرمائیے۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِيْلَ۔ قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں نسبت جزو اور کل کی ہے : اَلَمْ تَرَ کا خطاب، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں لکھ چکے ہیں، عموماً جمع اور اظہارِ تعجب و افسوس کے لیے آتا ہے۔ یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے اور اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ سے مراد یہود ہیں۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ پچھلے آسمانی صحیفوں اور قرآن عظیم میں نسبت جزو اور کل کی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کامل کتاب ہے، دوسرے آسمانی صحیفے اس کے اجزا و حصص کی حیثیت رکھتے ہیں، اس وجہ سے جو لوگ اس کتاب کامل کے اجزا و حصص کے حامل بنائے گئے تھے ان سے سب سے زیادہ توقع اس بات کی ہوسکتی تھی کہ جب یہ کتاب کامل ان کے پاس آئے گی تو وہ اس کا آگے بڑھ کر خیر مقدم کریں گے لیکن ان کا عجیب حال ہے کہ وہ اس ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کو قبول کرنا تو الگ رہا، دل و جان سے ان کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اس پائی ہوئی صراط مستقیم کو کھو بیٹھو۔ اوپر آیت 27 میں یہ اشارہ گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اس کتاب کے ذریعے سے پچھلے انبیاء و صالحین کے طریقوں کی طرف رہنمائی فرما رہا ہے لیکن خواہشات نفس کے پیرو یہ کوشش کر رہے کہ تم راہ حق سے بالکل ہی دور ہٹجاؤ۔ اب یہ اسی اشارے کی تفصیلات آرہی ہیں
Top