Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور یہ تمہیں حکم کس طرح بناتے ہیں جب کہ تورات ان کے پاس موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر حکم بنانے کے بعد برگشتہ ہوجاتے ہیں ! یہ ہرگز باایمان لوگ نہیں ہیں
شریعت سے فرار کے لیے یہود کی دہری شرارت : وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۔ یہ تعجب کا اظہار اس بات پر نہیں ہے کہ وہ تورات رکھتے ہوئے اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے آپ کو حکم کس طرح بناتے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وہ آپ کو حکم بنا کر آپ کے فیصلے سے مکرتے کس طرح ہیں جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے فیصلے شریعت الٰہی کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اول تو احکام، بالخصوص تعزیرات و حدود، بنیادی طور پر تورات و قرآن دونوں میں یکساں ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ کا طریقہ یہ تھا کیہ جن امور میں قرآن کی کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہوتی ان میں آپ فیصلہ احکام تورات کے مطابق فرماتے اور ان یہود کو اچھی طرح علم ہوتا کہ آپ کا فیصلہ تورات کے قانون کے مطابق ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیسی بےحیائی اور ڈھٹائی کی بات تھی کہ آپ کو حکم بھی بنایا جائے اور آپ کا فیصلہ اس قانون الٰہی کے مطابق بھی ہو جس پر ایمان کا دعوی ہے لیکن پھر اس فیصلہ سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ تفسیر کی کتابوں میں زنا کے ایک مقدمے کا ذکر ہے جس میں آنحضرت ﷺ کا فیصلہ بالکل تورات کے قانون کے مطابق تھا لیکن علمائے یہود نے اس طرح کے معاملات میں امری اور غریب کے لیے چونکہ الگ الگ ضابطے بنا رکھے تھے اس وجہ سے وہ تورات کے اصل قوانین کو چھپاتے تھے۔ چناچہ اس معاملے میں بھی انہوں نے یہی کوشش کی لیکن بالآخر ان کو اصل حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ روش ہر پہلو سے دعوائے ایمان کے منافی ہے۔ اول تو آپ کی عدالت میں مقدمہ کو لے جانا ہی اس خواہش کے ساتھ تھا کہ تورات کے قانون سے فرار کی شاید کوئی شکل نکل آئے۔ لیکن جب وہاں سے کوئی شکل نہیں نکلی تو یہ جانتے بوجھتے کہ آپ کا فیصلہ بالکل تورات کے حکم کے مطابق ہے اس سے گریز کی کوشش کی۔ فرمایا کہ وما اولئک بالمومنین، یہ لوگ کسی چیز پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔
Top