Tadabbur-e-Quran - At-Talaaq : 12
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠   ۧ
اَللّٰهُ الَّذِيْ : اللہ وہ ذات ہے خَلَقَ سَبْعَ : جس نے پیدا کیا سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَّمِنَ الْاَرْضِ : اور زمین میں سے مِثْلَهُنَّ : انہی کی مانند يَتَنَزَّلُ : اترتا ہے الْاَمْرُ : حکم بَيْنَهُنَّ : ان کے درمیان لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ عَلٰي كُلِّ : اوپر ہر شَيْءٍ : چیز کے قَدِيْرٌ : قادر ہے وَّاَنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَحَاطَ : تحقیق گھیر رکھا ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز کو عِلْمًا : علم کے اعتبار سے
اللہ ہی ہے جس نے بنائے سات آسمان اور انہی کے مانند زمین بھی۔ ان میں اس کے احکام نازل ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے جانو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ نے اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔
(اللہ الذی خلق سبع سموت ومن الارض مشلعن یتنزل الامربینن لتعلموا ان اللہ علی کل شئی قدیر وان اللہ قدا حاط بکل شی علماء) (12) (صفات الٰہی کا حوالہ تاکہ لوگوں کا عقیدہ محکم ہو)۔ یہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت قدرت اور صفت علم کی یاددہانی فرمائی ہے تاکہ اوپر جو باتیں فرمائی گئیں ہیں، خواہ ان کا تعلق تنبیہ و تہدید سے ہوتاتسکین و تسلی سے، ان کا اعتقاد لوگوں کے اندر راسخ ہو اور وہ یہ جانیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بےپناہ ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور اس کا علم بھی محیط کل ہے۔ سات آسمانوں اور سات زمینوں کی کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں ہے۔ اگر کسی نے کوئی نیکی کی ہے تو وہ بھی اس کے علم میں ہے اور اگر کسی نے کوئی بدی کی ہے تو وہ بھی اس کے علم میں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے متعلق یہ شعور اچھی طرح دلوں کے اندر راسخ نہ ہو اس وقت تک اس کی شریعت کے احترام کا صحیح حق ادا نہیں ہوسکتا۔ (سات آسمان اور سات زمین)۔ (اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن) اپنی قدرت کی وسعت کا تصور دینے کے لیے فرمایا کہ یہ گمان کرو کہ خدا کی کائنات کل اتنی ہی سے جتنی تمہیں نظر آتی ہے۔ یہ تو اس کی کائنات کا ایک نہایت ہی حقیر اور محدود حصہ ہے۔ یہ آسمان جو تمہیں نظر آتا ہے اس جیسے سات آسمان خدا نے بنائے ہیں اور زمین بھی یہی نہیں ہے جس پر تم چلتے پھرتے ہو بلکہ زمینیں بھی ہر آسمان کے ساتھ الگ الگ سات ہیں۔ سات آسمانوں کا ذکر تو قرآن میں بھی بار بار ہوا ہے اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں بھی لیکن سات زمینوں کا ذکر صرف اس سورة میں ہوا ہے لیکن جب سات آسمانوں کا ذکر ہوا ہے تو ان کے ساتھ سات زمینوں کا پایا جانا لازمی ہوا۔ آسمان اور زمین میں وہی نسبت ہے جو مکان اور اس کی چھت میں ہوتی ہے تو جب چھتیں سات ہیں تو مکان بھی سات ہونے چاہئیں۔ جس طرح آسمان کے بغیر زمین کا تصور نہیں کیا جاسکتا اسی طرح زمین کے بغیر آسمان کا بھی کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلندی کے لیے پستی کا وجود نا گزیر ہے۔ رہا یہ سوال کہ ان ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں میں ایک ہی طرح کے قوانین و نوامیس نافذ ہیں۔ اور ایک ہی قسم کی مخلوق آباد ہے یا الگ الگ مخلوق اور الگ نوامیس وقوانین ہیں تو مجرو مثلھن کے لفظ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر عام میں ایک ہی مخلوق اور ایک ہی قسم کے نوامیس و قوانین ہوں۔ اس مثلیت کا تعلق صرف پیدا کرنے سے ہے کہ اللہ نے جس طرح رات آسمان بنائے ہیں اسی طرح زمینیں بھی سات بنائی ہیں۔ رہے ان کے نوامیس و قوانین تو یہ چیز نہ اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے اور نہ ہماری اور آپ کی سمجھ میں آنے والی ہی ہے۔ ہمارے لیے یہ اجمالی ایمان بس ہے کہ۔۔ ع ستاروں سے آگ جہاں اور بھی ہیں ہماری سائنس ابھی فلائے لا متناہی میں آوارہ گردی کر رہی ہے۔ وہ ایک راز کا انکشاف کرتی ہے تو اس سے سینکڑوں معمے دوسرے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تاہم مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر سائنس سراغ نہ دے سکی تو جرأت میں انشاء اللہ سارے راز کھل جائیں گے۔ اس دنیا میں انسان کو جو علم ملا ہے وہ بہت قلیل ہے۔ (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) بنی اسرائیل : 17، 85)۔ (یتنزل الامر بینھن) یعنی جس طرح تمہارے آسمان و زمین کے درمیان خدا کے احکام و قوانین کا نزول ہوتا ہے اسی طرح دوسرے آسمانوں اور زمینوں کے اندر بھی اس کے احکام نازل ہوتے ہیں۔ (لتعلموا ان اللہ علی کل شی قدیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کا یہ راز تم پر اس لیے کھولا ہے کہ تم پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کوئی حدود نہایت نہیں ہے۔ لتعلموا سے پہلے ایک مناسب موقع فعل محذوف ہے اور اس قسم کے حذف کی مثالیں پیچھے گزرچکی ہیں۔ (وان اللہ قل احاط بکل شی علماء) یہ اس کا دوسرا مقصد واضح فرمایا کہ جس طرح اس کی قدرت کی کوئی حدود نہایت نہیں اسی طرح اسکے علم کی بھی کوئی حدود نہایت نہیں ہے۔ اس کا علم ان تمام عوالم کی ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے اس سورة کی تفسیر تمام ہوئی۔ فلللہ الحمد ولہ المنۃ۔ رحمان آباد۔ 25۔ اپریل 1978؁ء۔ 16 جمادی الاول 1398؁ھ۔
Top