Tadabbur-e-Quran - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور مریم بنت عمران کی مثال بیان کرتا ہے جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرما برداروں میں سے تھی
(ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روجنا وصدقت بکلمت ربھاو کتبہ وکانت من القنتین) (12) (برے ماحول کے اندر اپنی اعلیٰ تربیت کی عظیم مثال)۔ یہ آخر میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی مثال پیش کی ہے جو اگرچہ پیدا ہو تو ہوئیں ایک برے ماحول میں لیکن انہوں نے اپنی ذات توجہ، محنت، ریاضت اور انابت اور عبادت سے وہ مقام اللہ تعالیٰ کے ہاں حاصل کیا جو انہی کا خاص حصہ ہے۔ وہ جس دور میں پیدا ہوئیں بنی اسرائیل رومیوں کے غلام تھے اور اخلاقی و مذہبی اعتبار سے ان کا زوال جس حد تک پہنچ چکا تھا اس کا اندازہ ان ملامتوں سے ہوسکتا ہے جو ان کو حضرت یحییٰ ؑ اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ نے کی ہیں۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل کے کردار کا اندازہ ان کے اس رویہ سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور وقت کے دوسرے صالحین و ابرار کے ساتھ اختیار کیا اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ کے لیے لعنت کردی۔ اس تاریک ترین دور میں حضرت مریم ؑ پیدا ہوتی ہیں جن کو ماضی کا کوئی قابل ذکر سہارا حاصل نہ ہوا لیکن بچپن ہی سے ان کا حال یہ تھا کہ جس زمانے میں وہ بیت المقدس کے اندرمتعکف تھیں حضرت زکریا ؑ (جو ان کے خالو تھے) کبھی کبھی ان کے پاس جاتے تو ان کے روحانی کمالات کو محسوس کر کے عش عش کر اٹھتے۔ یہاں تک کہ ان کے انہی کمالات سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے لیے بھی ایک ایسے ہی با کمال فرزند کی دعا کی اور ان کی اس دعا کی قبولیت ان کے لیے حضرت یحییٰ ؑ کی ولادت کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ یہ حضرت مریم ؑ اس حقیقت کی زندہ جاوید مثال ہیں کہ انسان کے اندر اگر سچی انابت ہو تو وہ بد تر سے بد تر ماحول کے اندر بھی اپنے کو ملائکہ کے لیے قابل رشک بنا سکتا ہے چناچہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اس قابل پایا کہ ان کو اپنی ایک عظیم امانت کا حامل بنایا اور ان کے ناموس کو بدگویوں کو زبان درازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی وہ شان ظاہر فرمائی جو اس آسمان کے نیچے کسی کے لیے بھی نہیں ظاہر فرمائی۔ (التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا) یہ ان کے اس اصل کمال کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم امانت کے حامل ہونے کی اہل ٹھہریں۔ لفظ فرج عربی میں محدود معنی میں نہیں آتا۔ اس کے اصل معنی موضع مخافۃ (اندیشہ کی جگہ) کے ہیں۔ جن راستوں سے بھی انسان کے اندر کوئی برائی راہ پا سکتی ہے وہ سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (احصنت فوجھا) کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے وجود کے ان تمام حصوں پر پورا پہرہ قائم رکھا جہاں سے کوئی بدی راہ پا سکتی تھی، اس کا انعام اللہ نے ان کو یہ دیا کہ ان کے اندر اپنی روح پھونکی اور حضرت مسیح ؑ کی شکل میں ان کے بطن سے اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ظاہر ہوئی۔ (وصدقت بکلت ربھا و کتبہ وکانت من القنتین) یہ ان کو مذکورہ خاص فضیلت کے بعد ان کے عام ایمانی فضائل کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو ان کے رب کی جانب سے جو حکم بھی ملا انہوں نے بےچون و چرا تصدیق و تعمیل کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے صحیفوں کی ہر تعلیم پر بھی وہ قائم و دوائم رہیں۔ وہ ہر لمحہ اپنے رب کی طرف دھیان رکھنے والی تھیں اس وجہ سے سخت سے سخت آزمائشوں کے اندر بھی انہیں اپنے رب کے احکام کی تعمیل کی توفیق ملی اور ان کے اوسان بجا رہے۔ (ایک نکتہ خاص توجہ کے لائق)۔ یہاں یہ امر خاص توجہ کے لائق ہے کہ برائی کی مثال کے لیے بھی عورتوں ہی کا انتخاب کیا ہے اور بھلائی کا مثال کے لیے بھی انہی کے نام لیے ہیں۔ اس سے مقصود اس عام غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ تمام برائی کا سرچشمہ عورت ہی ہے۔ اپنی خلقت کے اعتبار سے عورت بھی خیر و شر دونوں صلاحیتوں کی حامل ہے۔ اگر وہ اپنے اختیار و ارادہ کو صحیح طور پر استعمال نہ کے تو بہتر سے بہتر رفیق کی بد ترین ساتھی بن سکتی ہے اور اگر وہ ایمان و قنوت کی حلاوت سے آشنا ہوجائے تو بد تر سے بد تر ماحول کے اندر بھی وہ حور جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سطور پر اس سورة کی تفسیر تمام ہوئی۔ فالحمد للہ علی فضلہ واحسانہ)۔ رحمان آباد۔۔ 6۔ جون 1978؁ء۔ 28 جمادی الثانی 1398؁ھ
Top