Tafheem-ul-Quran - Yunus : 101
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
قُلِ : آپ کہ دیں انْظُرُوْا : دیکھو مَاذَا : کیا ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : زمین وَمَا تُغْنِي : اور نہیں فائدہ دیتیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں وَالنُّذُرُ : اور ڈرانے والے عَنْ : سے قَوْمٍ : لوگ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : وہ نہیں مانتے
اِن سے کہو”زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔“ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے اُن کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مُفید ہو سکتی ہیں۔105
سورة یُوْنُس 105 یہ ان کے اس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیے شرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آجائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبول حق کی آمادگی ہو تو وہ بےحدوحساب نشانیاں جو زمین و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغام محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی، خواہ وہ کیسی ہی خارق عادت اور عجیب و غریب ہو، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کرسکتی۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرف کہو گے کہ یہ تو جادوگری ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں ان کی آنکھیں صرف اس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہروغضب اپنی ہولناک سختی گیری کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
Top