Tafheem-ul-Quran - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ : اور جب اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ : تم نے ان سے کنارہ کرلیا وَ : اور مَا يَعْبُدُوْنَ : جو وہ پوجتے ہیں اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا فَاْوٗٓا : تو پناہ لو اِلَى : طرف میں الْكَهْفِ : غار يَنْشُرْ لَكُمْ : پھیلادے گا تمہیں رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَيُهَيِّئْ : مہیا کرے گا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَمْرِكُمْ : تمہارے کام مِّرْفَقًا : سہولت
اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔11 تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کےلیے سروسامان مہیّا کر دے گا۔“
سورة الْكَهْف 11 جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر افسُس ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوں کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نوید دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمان ؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان ephesus شرد اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے، جو اگلے رکوع میں آرہا ہے، کہ " اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑگیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔
Top