Tafheem-ul-Quran - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے، 42 اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاوٴ گے، 43 اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے)ایک بھی نہ چھُوٹے گا، 44
سورة الْكَهْف 42 یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ (النحل۔ آیت 88)۔ " تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں "۔ سورة الْكَهْف 43 یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ " جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنایا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بےآب وگیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی "۔ سورة الْكَهْف 44 یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کردیا جائے گا۔
Top