Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو،220 یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
سورة الْبَقَرَة 220 “ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کے زمانے سے عرب کا معروف طریقہ حج یہ تھا کہ 9 ذی الحجہ کو منیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْدلفہ میں ٹھیرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیت قائم ہوگئی، تو انہوں نے کہا ہم اہل حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہل عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چناچہ انہوں نے اپنے لیے یہ شان امتیاز قائم کی کہ مزدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خزاعہ اور بنی کنانہ اور ان دوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہوگیا، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے، ان کی شان بھی عام عربوں سے اونچی ہوگئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر و غرور کا بت اس آیت میں توڑا گیا ہے۔ آیت کا خطاب خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطاب عام ان سب کی طرف ہے، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصوص کرنا چاہیں۔ ان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اور سب لوگ جہاں تک جاتے ہیں، انہیں کے ساتھ جاؤ، انہیں کے ساتھ ٹھیرو، انہیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو۔
Top