Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں 29 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، 30 یہ  اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے
سورة النُّوْر 29 اس میں الفاظ ہیں یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم " نظر بچانے " سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق وسباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں 1 آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑجائے تو وہ معاف ہے، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی ﷺ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کردیتی ہیں، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک الاٰخرۃ، " اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں " (احمد، ترمذی، ابو داؤد، دارمی)۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا اچانک نگاہ پڑجائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو، یا نیچی کرلو (مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموم، من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہ " نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ما من مسلم ینظر الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، " جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کردیتا ہے " (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس ؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضور ﷺ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی ﷺ نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور ﷺ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی ﷺ نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کردیا۔ (بخاری، ابو داؤد، ترمذی)۔ 2 اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہوجانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیر مسلم عورتیں تو بےپردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورة احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی ﷺ کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن معطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعرفنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باسترجاعہ حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی، " وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا "۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر، سیرت ابن ہشام) ابو داؤد، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون ام خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی ﷺ کے پاس آئیں، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی، " میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی "۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ ﷺ کو درخواست دی۔ حضور ﷺ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا ؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا " عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے "۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں " (ابو داؤد، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔ 3 غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بینکما، " اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی " (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا انظر الیھا فان فی اعین الانصار شیئاً ، " لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے " (مسلم، نسائی، احمد)۔ جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذا خطب احدکم المرأۃ فَقَدَ رَاَن یریٰ منھا بعض ما یدعوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، " تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو " (احمد، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کرلینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بیخبر ی میں بھی اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔ 4 غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المرأۃ الیٰ عورۃ المرأۃ، " کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے " (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی)۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذ حی ولا میت، " کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو " (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔
Top