Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّلْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں کو يَغْضُضْنَ : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِنَّ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظْنَ : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُنَّ : اپنی شرمگاہیں وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : زپنی زینت اِلَّا : مگر مَا : جو ظَهَرَ مِنْهَا : اس میں سے ظاہر ہوا وَلْيَضْرِبْنَ : اور ڈالے رہیں بِخُمُرِهِنَّ : اپنی اوڑھنیاں عَلٰي : پر جُيُوْبِهِنَّ : اپنے سینے (گریبان) وَلَا يُبْدِيْنَ : اور وہ ظاہر نہ کریں زِيْنَتَهُنَّ : اپنی زینت اِلَّا : سوائے لِبُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے خاوندوں پر اَوْ : یا اٰبَآئِهِنَّ : اپنے باپ (جمع) اَوْ : یا اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : اپنے شوہروں کے باپ (خسر) اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ : یا اپنے بیٹے اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ : یا اپنے شوہروں کے بیٹے اَوْ اِخْوَانِهِنَّ : یا اپنے بھائی اَوْ : یا بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ : اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے) اَوْ : یا بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ : یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے) اَوْ نِسَآئِهِنَّ : یا اپنی (مسلمان) عورتیں اَوْ مَا مَلَكَتْ : یا جن کے مالک ہوئے اَيْمَانُهُنَّ : انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں) اَوِ التّٰبِعِيْنَ : یا خدمتگار مرد غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ : نہ غرض رکھنے والے مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد اَوِ الطِّفْلِ : یا لڑکے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَمْ يَظْهَرُوْا : وہ واقف نہیں ہوئے عَلٰي : پر عَوْرٰتِ النِّسَآءِ : عورتوں کے پردے وَلَا يَضْرِبْنَ : اور وہ نہ ماریں بِاَرْجُلِهِنَّ : اپنے پاؤں لِيُعْلَمَ : کہ جان (پہچان) لیا جائے مَا يُخْفِيْنَ : جو چھپائے ہوئے ہیں مِنْ : سے زِيْنَتِهِنَّ : اپنی زینت وَتُوْبُوْٓا : اور تم توبہ کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ( آگے) جَمِيْعًا : سب اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ : اے ایمان والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، 31 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، 32 اور 33 اپنا بناوٴ سنگھار نہ دکھائیں 34 بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، 35 اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ 36 وہ اپنا  بناوٴ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے 37 : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ 38 ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے 39 ، بھائی 40 ، بھائیوں کے بیٹے 41 ، بہنوں کے بیٹے 42 ، اپنے میل جول کی عورتیں 43 ، اپنے مملوک 44 ، وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں 45 ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف  نہ ہوئے ہوں۔ 46 وہ اپنے پاوٴں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا  رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ 47 اے مومنو، تم سب مِل کر اللہ سے توبہ کرو 48 ، توقع ہے کہ فلاح پاوٴ گے۔ 49
سورة النُّوْر 30 شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض ناجائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی ﷺ نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں عورۃ الرجل ما بین سُرَّتہ الیٰ رکبتہ، " مرد کا ستر اس کی ناف سے گھٹنے تک ہے " (دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جرھَدِ اَسْلمی، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اما علمت ان الفخذ عورۃ، " کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے کے قابل چیز ہے " ؟ (ترمذی، ابو داؤد، مؤطا)۔ حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لا تبرز (یا لا تکشف) فخذک، " اپنی ران کبھی نہ کھولو "۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چناچہ حضور کا ارشاد ہے ایاکم ولا تعری فان معکم من لا یفارقکم الا عند الغائط وحین یفضی الرجل الیٰ اھلہ فاستحیوھم و اکرموھم، " خبردار، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے) سوائے اس وقات کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو " (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا احفظ عورتک الا من زوجتک او ما ملکت یمینک، " اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو "۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستحیا منہ، " تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے، " (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ سورة النُّوْر 31 عورتوں کے لئے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لئے ہیں، یعنی انہیں قصدا غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہئے، نگاہ پڑجائے تو ہٹا لینی چاہئے، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے، لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کو مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ ؓ نبی ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم ؓ آگئے، نبی ﷺ نے دونوں بیویوں سے فرمایا احتجبا منہ ان سے پردہ کرو، بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ الیس اعمی لا یبصرنا و لا یعرفنا، یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے، فرمایا افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہ، کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تما نہیں دیکھتیں ؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ ذلک بعد ان امر بالجاب، یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا۔ (احمد ابو داؤد، ترمذی) اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک نابینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا، کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ؟ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا لکنی انظر الیہ، میں تو اسے دیکھتی ہوں۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ 7 ہجری میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا نبی ﷺ نے خود حضرت عائشہ کو یہ تماشا دکھایا۔ (بخاری، مسلم، احمد) تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں، پہلے حضور نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو، پھر فرمایا ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں) لہذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو، وہ اندھے آدمی ہیں، تم ان کے ہاں بےتکلف رہ سکو گی (مسلم، ابوداؤد) ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے، راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے۔ اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالی اور ابن جر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ سوکانی نیل الاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جوزا کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں، بازاروں میں، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں، مگر مردوں کو کبھی یہ حخم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے۔ (جلد 6، صفحہ 101) تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتیں اطمینان سے مردوں کو گھوریں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔ سورة النُّوْر 32 یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں، اور اپنا ستر دونوں کے سامنے کھونے سے بھی، اس معاملے میں عورتوں کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں، لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں، نیز عورت کا ستر مردوں کے لئے الگ ہے اور عورتوں کے لئے الگ۔ مردوں کے لئے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد حتی کہ باپ اور بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہئے، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہئے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضور نے فورا منہ پھیرلیا اور فرمایا یا اسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا انیری منھا الا ھذا و ھذا و اسار الی وجھہ وکفیہ، اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔ (ابوداؤد) اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں ایک اخیافی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لاے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیرلیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ نے فرمایا اذا عرکت المرأۃ لم یحل لھا ان تظھر الا وجھھا و الا مادون ھذا و قبض علی ذراع نفسہ وترک بین قبضتہ و بین الکف مثل قبضۃ اخری، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلا باپ بھائی وغیرہ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پانچے کچھ اوپر کرلینا۔ اور عورت کے لئے عوعرت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لئے مرد کے ستر کے ہیں، یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے۔ سورة النُّوْر 33 یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں۔ سورة النُّوْر 34 " بناؤ سنگھار " ہم نے " زینت " کا ترجمہ کیا ہے، جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے خوشنما کپڑے، زیور، اور سر، منہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتیں دنیا میں کرتی ہیں، جن کے لیے موجودہ زمانے میں (Makeup) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ سورة النُّوْر 35 اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنادیا ہے، ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ لا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ، " وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں "۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مِنْھَا، " جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو، یا ظاہر ہوجائے "۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہوجائے (جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے، کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے، اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے) ، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کردیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے، اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے۔ یہ مطلب ابن عباس ؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن جصاص، جلد 3، صفحہ 388۔ 389)۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں۔ " ظاہر ہونے " اور ظاہر کرنے " میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر " ظاہر کرنے " سے روک کر " ظاہر ہونے " کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو " ظاہر کرنے " کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں، اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنادیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجائز ہے۔ رہا حجاب، تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے، اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے۔ سورة النُّوْر 36 زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں (تفسیر کشاف جلد 2، صفحہ 90۔ ابن کثیر جلد 3، صفحہ 283۔ 284)۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورة نور نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے (ابن کثیر، ج 3، ص 284۔ ابو داؤد، کتاب اللباس)۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آجاتی ہے، چناچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہوسکتا ہے۔ لیکن صاحب شریعت ﷺ نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ (قَبَاطِی) آئی۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دو ، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا، " اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (ابو داؤد، کتاب اللباس)۔ سورة النُّوْر 37 یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی، بہرحال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب وزینت کے ساتھ آئے۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بےپروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہوجائے، یا جس کا چھپانا ممکن نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے۔ سورة النُّوْر 38 اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پردادا اور نانا پرنانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آسکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آسکتی ہے۔ سورة النُّوْر 39 بیٹیوں میں پوتے پر پوتے اور نواسے پرنواسے سب شامل ہیں۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کرسکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کرسکتی ہے۔ سورة النُّوْر 40 " بھائیوں " میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں۔ سورة النُّوْر 41 بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے، یعنی ان کے پوتے پر پوتے اور نواسے پرنواسے سب اس میں شامل ہیں۔ سورة النُّوْر 42 یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے، باقی سب لوگوں کو، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار، نبی ﷺ نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو۔ اور باقی سب سے ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں، مثلاً چچا، ماموں، داماد اور رضاعی رشتہ دار۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے، اور اسی کی تائید علامہ ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے (ج۔ 3، ص۔ 390)۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو (یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بےتکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیں، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے، ان کی عمر، عورت کی عمر، خاندانی تعلقات و روابط، اور فریقین کے حالات (مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اس معاملے میں نبی ﷺ کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جو نبی ﷺ کی سالی تھیں، آپ کے سامنے ہوتی تھیں، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع نبی ﷺ کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الحج، باب المحرم یؤدِّب غلامہ)۔ اسی طرح حضرت ام ہانی، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی ﷺ کی چچا زاد بہن تھیں، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الصوم، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ)۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی ﷺ کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہوگئے ہو، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں، لہٰذا تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حضور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑجائے وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا (یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا، کیونکہ وہ دراصل میرے نطفے سے ہے۔ یہ مقدمہ نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کردیا کہ " بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر "۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا (احتجبی منہ) ، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے۔ سورة النُّوْر 43 اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے " ان کی عورتیں "۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں، یہ بحث تو بعد کی ہے۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض " عورتوں " (النسآء) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بےپردہ ہونا اور اظہار زینت کرنا جائز ہوجاتا، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہرحال ایک خاص دائرے تک محدود کردیا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے، اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآءِھِنَّ کا اطلاق ہوتا ہے، اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں۔ غیر مسلم عورتیں خواہ وہ ذمی ہوں یا کسی اور قسم کی، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔ ابن عباس، مجاہد اور ابن جریج کی یہی رائے ہے، اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو لکھا " میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے "۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے " خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے اس کا منہ آخرت میں کالا ہوجائے "۔ (ابن جریر، بیہقی، ابن کثیر)۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا۔ تیسری رائے یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے دراصل ان کے میل جول کی عورتیں، ان کی جانی بوجھی عورتیں، ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جاسکے۔ اس رائے کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے۔ شریف، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں، ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بےتکلف ہو سکتی ہیں، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بےحیا، آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں، خواہ " مسلمان " ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے۔ رہیں اَن جانی عورتیں، جن کی حالت معلوم نہیں ہے، تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے، یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے، باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے۔ سورة النُّوْر 44 اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کرسکتی ہے مگر غلام، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ یہ عبد اللہ بن مسعود، مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن مُسَیَّب، طاؤس اور امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ اگر وہ آزاد ہوجائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے۔ پہلے نِسَآءِھِنَّ فرمایا، پھر ما ملکت ایمانھن ارشاد ہوا۔ نِسَآءِھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں۔ اس لیے ما ملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کردی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی ﷺ ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوئے حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا لیس علیک باسٌ، انماھو ابوک و غلامک۔ " کوئی حرج نہیں، یہاں بس تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام " (ابو داؤد، احمد، بیہقی بروایت انس بن مالک۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی ﷺ نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا، انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کردیا، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس نے دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امیر معاویہ کا پر جوش حامی تھا)۔ اسی طرح وہ نبی ﷺ کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤدی فلتحتجب منہ، " جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کرلے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے " (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، بروایت ام سلمہ) سورة النُّوْر 45 اصل میں التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہوگا " مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے "۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کرسکتی ہے جبکہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ وہ تابع، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت، یا عقلی کمزوری، یا فقر و مسکنت، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے، نہ کہ نافرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کرلے گا کہ آج کل کے بیرے خانسامے، شوفر اور دوسرے جوان جوان نوکر تو بہرحال اس تعریف میں نہیں آتے۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں ابن عباس اس سے مراد وہ سیدھا بدھو (مُغَفَّل) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ قَتَادہ ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے۔ مجاہد ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے۔ شَعبِی وہ جو صاحب خانہ کا تابع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے۔ ابن زید وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا بڑہا ہو۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو، نہ اس کی ہمت ہی کرسکتا ہو۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے۔ طاؤس اور زہری بیوقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت۔ (ابن جریر، ج 18۔ ص 95۔ 96۔ ابن کثیر، ج 3 ص 285) ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی ﷺ کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور احمد وغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی ﷺ ام المومنین ام سلمہ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہوجائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا۔ پھر اس نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشیدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی۔ نبی ﷺ نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا " خدا کے دشمن، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں "۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اولی الاربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہرحال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے۔ سوْرَةُ النُّوْر 46 یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آسکتی ہے۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہوں، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ سورة النُّوْر 47 نبی ﷺ نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سوا دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لا تمنعوا اماء اللہ مَسَاجد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات، " اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں "۔ (ابو داؤد، احمد)۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابوہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا " اے خدائے جبار کی بندی، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے " ؟ اس نے کہا ہاں۔ بولے " میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کرلے " (ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، نسائی)۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجدوا ریحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدیدا، " جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے " (ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو (ابو داؤد)۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی ﷺ کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں۔ چناچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں۔ التسبیح للرجال والتصفیق للنساء (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)۔ سورة النُّوْر 48 یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کرلو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں۔ سورة النُّوْر 49 اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی ﷺ نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں 1 آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو (خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا لا تلجوا علی المغیبات فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم، " جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے " (ترمذی)۔ انہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ والیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان، " جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے " (احمد)۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ، یا رسول اللہ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے (ابو داؤد، کتاب الصوم)۔ 2 آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے۔ چناچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ " نبی ﷺ کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جب وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے، جاؤ بس تمہاری بیعت ہوگئی " (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ 3 آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا ذو محرم، ولا تسافر المرأۃ لا مع ذی محرم، ’ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو "۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا فانطلق فحج مع امرأتک، " اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ "۔ اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ ؓ سے معتبر کتب حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفر کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے، مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ان میں سے کسی حدیث میں 12 میل یا اس سے زیادہ کے سفر پر پابندی کا ذکر ہے، کسی میں ایک دن، کسی میں ایک شب و روز، کسی میں دو دن اور کسی میں تین دن کی حد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ اختلاف ان احادیث کو نہ تو ساقط الاعتبار بنا دیتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے یہی ضروری ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دے کر اس حد کو قانونی مقدار قرار دینے کی کوشش کریں جو اس روایت میں بیان ہوئی ہو۔ اس لیے کہ اس اختلاف کی یہ معقول وجہ سمجھ میں آسکتی ہے کہ مختلف مواقع پر جیسی صورت معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوئی ہو اسی کے لحاظ سے آپ نے حکم بیان فرمایا ہو۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کی مسافت پر جارہی ہو اور آپ نے اسے محرم کے بغیر جانے سے منع فرمایا ہو، اور کوئی ایک دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے بھی روک دیا ہو۔ اس میں مختلف سائلوں کے الگ الگ حالات اور ہر ایک کو آپ کے مختلف جوابات اصل چیز نہیں ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قاعدہ ہے جو اوپر ابن عباس والی روایت میں ارشاد ہوا ہے، یعنی سفر، جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے، محرم کے بغیر کسی عورت کو نہ کرنا چاہیے۔ 4 آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کوشش فرمائی اور قولاً بھی اس سے منع فرمایا اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے، کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔ جمعہ کو اللہ نے خود فرض کیا ہے، اور نماز با جماعت کی اہمیت کا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلا عذر مسجد میں حاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی ﷺ کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی (ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قطنی، حاکم، بروایت ابن عباس)۔ لیکن نبی ﷺ نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا (ابو داؤد بروایت ام عطیہ، دارقطنی و بیہقی بروایت جابر، ابو داؤد دو حاکم بروایت طارق بن شہاب)۔ اور نماز با جماعت میں عورتوں کی شرکت نہ صرف یہ کہ لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں روکو نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ تصریح بھی فرمادی کہ ان کے لیے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ابن عمر ؓ اور ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، " اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو " (ابو داؤد)۔ دوسری روایات ابن عمر سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہیں ائذنوا للنساء الی المساجد باللیل، " عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو " (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد)۔ اور ایک روایت ان الفاظ میں ہے لا منعوا نساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن، اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں، اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں " (احمد، ابو داؤد)۔ ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ فرمایا " تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے میں پڑھنے سے بہتر ہے، اور تمہارا اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے، اور تمہارا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے " (احمد، طبرانی)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت ابو داؤد میں عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے، اور حضرت ام سلمہ کی روایت میں نبی ﷺ کے الفاظ یہ ہیں خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، " عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں "۔ (احمد، طبرانی)۔ لیکن حضرت عائشہ دور بنی امیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں " اگر نبی ﷺ عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا آنا بند کیا گیا تھا " (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ مسجد نبوی میں حضور ﷺ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کردیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور باب ماجاء فی خروج النساء الی المساجد)۔ جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تاکہ مردوں کے اٹھنے سے پہلے عورتیں اٹھ کر چلی جائیں (احمد، بخاری، بروایت ام سلمہ)۔ آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوں سے قریب) کی صف۔ اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے آگے کی (یعنی مردوں سے قریب کی) صف ہے (مسلم۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی، احمد)۔ عیدین کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی ﷺ خطبے کے بعد عورتوں کی طرف جا کر ان کو الگ خطاب فرماتے تھے (ابو داؤد بروایت جابر بن عبد اللہ۔ بخاری و مسلم بروایت بن عباس)۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ اس پر آپ نے عورتوں سے فرمایا استاخرن فانہ لیس لکن ان تھتضن الطریق، علیکن بحانات الطریق، " پھر جاؤ، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے، کنارے پر چلو "۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیواروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو داؤد)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلس اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغایرت رکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا اس کے متعلق کون تصور کرسکتا ہے کہ وہ کالجوں میں، دفتروں میں، کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا۔ 5 عورتوں کو اعتدال کے ساتھ بناؤ سنگھار کرنے کی آپ نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ بسا اوقات خود اس کی ہدایت فرمائی ہے، مگر اس میں حد سے گزر جانے کو بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس زمانے میں جس قسم کے بناؤ سنگھار عرب کی عورتوں میں رائج تھے ان میں سے حسب ذیل چیزوں کو آپ نے قابل لعنت اور سبب ہلاکت اقوام قرار دیا اپنے بالوں میں دوسرے بال ملا کر ان کو زیادہ لمبا اور گھنا دکھانے کی کوشش کرنا۔ جسم کے مختلف حصوں کو گودنا اور مصنوعی تل بنانا۔ بال اکھاڑ اکھاڑ کر بھویں خاص وضع میں بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا۔ دانتوں کو گھس گھس کر باریک بنانا، یا دانتوں کے درمیان مصنوعی چھینیاں پیدا کرنا۔ زعفران یا ورس وغیرہ کے مصنوعی ابٹنے مل کر چہرے پر مصنوعی رنگ پیدا کرنا۔ یہ احکام صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، اور امیر معاویہ سے معتبر سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔ اللہ اور رسول کی ان صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کر دے جن کے سد باب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اسکے رسول نے سنت میں اس قدر تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث ان کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ان دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف مغربی معاشرت کے طور طریقے اختیار کرلینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھر ان ہی کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں سرے سے پردے کا حکم موجود ہی نہیں ہے، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کرلیتے ہیں جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کرسکتا ہے نہ آخرت میں خدا سے اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدا اور رسول کے ان احکام کو غلط اور ان طریقوں کو صحیح و بر حق سمجھتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بےمعنی ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغا بازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے۔
Top