Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذَا : اور جب دُعُوْٓا : جب وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں اِذَا : ناگہاں فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر لیتا ہے
جب ان کو بُلایا جاتا ہے اللہ اور رسُول کی طرف، تاکہ رسُول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے 77 تو ان میں سے ایک فریق کَترا جاتا ہے۔ 78
سورة النُّوْر 77 یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ رسول کی طرف بلایا جانا صرف رسول ہی کی طرف بلایا جانا نہیں بلکہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف بلایا جانا ہے۔ نیز اس آیت اور اوپر والی آیت سے یہ بات بلا کسی اشتباہ کے بالکل واضح ہوجاتی ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر ایمان کا دعویٰ بےمعنی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس قانون کے آگے جھک جائیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا ہے۔ یہ طرز عمل اگر وہ اختیار نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان ایک منافقانہ دعویٰ ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورة نساء آیات 59۔ 61۔ مع حواشی 89 تا 92)۔ سورة النُّوْر 78 واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبی ﷺ کی زندگی ہی کے لیے نہ تھا، بلکہ آپ کے بعد جو بھی اسلامی حکومت کے منصب قضا پر ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے کرے اس کی عدالت کا سمن دراصل اللہ اور رسول کی عدالت کا سمن ہے، اور اس سے منہ موڑنے والا درحقیقت اس سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے منہ موڑنے والا ہے۔ اس مضمون کی یہ تشریح خود نبی ﷺ سے ایک مرسل حدیث میں مروی ہے جسے حسن بصری ؒ نے روایت کیا ہے کہ من دُعِیَ الیٰ حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ " جو شخص مسلمانوں کے حکام عدالت میں سے کسی حاکم کی طرف بلایا جائے اور وہ حاضر نہ ہو تو وہ ظالم ہے۔ اس کا کوئی حق نہیں ہے " (احکام القرآن جصاص ج 3، ص 405)۔ بالفاظ دیگر ایسا شخص سزا کا بھی مستحق ہے، اور مزید براں اس کا بھی مستحق ہے کہ اسے برسر باطل فرض کر کے اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ دے دیا جائے۔ سورة النُّوْر 79 یہ آیت اس حقیقت کو صاف صاف کھول کر بیان کر رہی ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتوں کو خوشی سے لپک کرلے لے، مگر جو کچھ خدا کی شریعت میں اس کی اغراض و خواہشات کے خلاف ہو اسے رد کر دے، اور اس کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے قوانین کو ترجیح دے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے، کیونکہ وہ ایمان خدا اور رسول پر نہیں، اپنی اغراض اور خواہشات پر رکھتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ خدا کی شریعت کے کسی جز کو اگر وہ مان بھی رہا ہے تو خدا کی نگاہ میں اس طرح کے ماننے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
Top