Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 10
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ١ؕ اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ
وَمِنَ : اور سے۔ کچھ النَّاسِ : لوگ مَنْ يَّقُوْلُ : جو کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَاِذَآ : پھر جب اُوْذِيَ : ستائے گئے فِي اللّٰهِ : اللہ (کی راہ) میں جَعَلَ : بنا لیا فِتْنَةَ : ستانا النَّاسِ : لوگ كَعَذَابِ : جیسے عذاب اللّٰهِ : اللہ وَلَئِنْ : اور اگر جَآءَ : آئے نَصْرٌ : کوئی مدد مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہتے ہیں اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ اَوَلَيْسَ : کیا نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِمَا : وہ جو فِيْ صُدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں الْعٰلَمِيْنَ : جہان
لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔13 مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔14 اب اگر تیرے ربّ کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ”ہم تو تمہارے ساتھ تھے“15 کیا دنیا والوں کےدلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟
سورة العنکبوت 13 اگرچہ کہنے والا ایک شخص ہے، مگر " میں ایمان لایا " کہنے کے بجائے کہہ رہا ہے " ہم ایمان لائے " امام رازی نے اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منافق اپنے آپ کو ہمیشہ زمرہ اہل ایمان میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ایمان کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ بھی ویسا ہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بزدل اگر کسی فوج کے ساتھ گیا ہے اور اس فوج کے بہادر سپاہیوں نے لڑ کر دشمنوں کو مار بھگایا ہے، تو چاہے اس نے خود کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو، مگر وہ آکر یوں کہے گا کہ ہم گئے اور ہم خوب لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست فاش دے دی، گویا آپ بھی انہی بہادروں میں سے ہیں جنہوں نے داد شجاوت دی ہے۔ سورة العنکبوت 14 یعنی جس طرح اللہ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آنا چاہیے، یہ شخص بندوں کی دی ہوئی تکلیفوں میں سے ڈر کر ایمان اور نیکی سے باز آگیا۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی دھمکیوں اور مار پیٹ اور قید و بند سے جب اسے سابقہ پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ اللہ کی وہ دوزخ بھی بس اتنی ہی کچھ ہوگی جس سے مرنے کے بعد کفر کی پاداش میں سابقہ پیش آنا ہے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ عذاب تو بعد میں بھگت لوں گا، یہ نقد عذاب جو اب مل رہا ہے اس سے بچنے کے لیے مجھے ایمان چھوڑ کر پھر زمرہ کفار میں جا ملنا چاہیے تاکہ دنیا کی زندگی تو خیریت سے گزر جائے۔ سورة العنکبوت 15 یعنی آج تو وہ اپنی کھال بچانے کے لیے کافروں میں جا ملا ہے اور اہل ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ دین حق کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی نکیر تک پھڑوانے کو تیار نہیں ہے۔ مگر جب اس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی گلا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصہ بٹانے کے لیے آموجود ہوگا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم تمہارے ہی ساتھ تھے، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابل برداشت اذیت یا نقصان، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمہ کفر کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعا جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اس مخلص مسلمان میں جو بحالت مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے اور اس مصلحت پرست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی، مگر درحقیقت جو چیز ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے، بلکہ عملا بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہل دین کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی کامیابی سے وہ خوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بےچین ہوجاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہل دین کے ساتھ جا ملے۔ اس کے برعکس مصلحت پرست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دین حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہل دین سے منہ موڑ لیتا ہے، کافروں سے رشتہ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا جو دین کے سخت خلاف اور اہل دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کرلیتا کہ شاید کسی وقت دین حق ہی کا بول بالا ہوجائے۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہ حق میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین ادا کرنے میں ذرہ برابر بخل نہیں کرتا، تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۔ (آیت 141) " یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچایا ؟ "۔
Top