Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 35
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَلَقَدْ تَّرَكْنَا : اور البتہ ہم نے چھوڑا مِنْهَآ : اس سے اٰيَةًۢ بَيِّنَةً : کچھ واضح نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : وہ عقل رکھتے ہیں
اور ہم نے اُس بستی کی ایک کھُلی نشانی چھوڑ دی ہے59 اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔60
سورة العنکبوت 59 اس کھلی نشانی سے مراد ہے بحیرہ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اس ظالم قوم پر اس کے کرتوتوں کی بدولت جو عذاب آیا تھا اس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہ عام پر موجود ہے جسے تم شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے شب و روز دیکھتے ہو۔ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ (الحجر) اور وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ۔ وَبِالَّيْلِ۔ (الصافات) موجودہ زمانے میں یہ بات قریب قریب یقین کے ساتھ تسلیم کی جارہی ہے کہ بحیرہ مردار کا جنوبی حصہ ایک ہولناک زلزلہ کی وجہ سے زمین میں دھنس جانے کی بدولت وجود میں آیا ہے اور اسی دھنسے ہوئے حصے میں قوم لوط کا مرکزی شہر سدوم (Sodom) واقع تھا۔ اس حصے میں پانی کے نیچے کچھ ڈوبی ہوئی بستیوں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ حال میں جدید آلات غوطہ زنی کی مدد سے یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ کچھ لوگ نیچے جاکر ان آثار کی جستجو کریں۔ لیکن ابھی تک ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة شعراء حاشیہ 114) سورة العنکبوت 60 عمل قوم لوط کی شرعی سزا کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلدو دوم الاعراف، حاشیہ 68۔
Top