Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 7
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے اچھے عمل کیے لَنُكَفِّرَنَّ : البتہ ہم ضرور دور کردیں گے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ : اور ہم ضرور جزا دیں گے انہیں اَحْسَنَ : زیادہ بہتر الَّذِيْ : وہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔10
سورة العنکبوت 10 ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور اعضا وجوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہوں، اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں ا سے دور کردی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہوجائیں گے، دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے ان سے درگزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہوگی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہوجائیں گی۔ ایمان و عمل صالح کی جزا کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے۔ مثلا سورة انعام میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا۔ (آیت 160) " جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا "۔ اور سورة قصص میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا۔ (آیت 84) " جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا "۔ اور سورة نساء میں فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا۔ (آیت 40) " اللہ طلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا، اور نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے "۔
Top