Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 8
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا١ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَوَصَّيْنَا : اور ہم نے حکم دیا الْاِنْسَانَ : انسان کو بِوَالِدَيْهِ : ماں باپ سے حُسْنًا : حسنِ سلوک کا وَاِنْ : اور اگر جَاهَدٰكَ : تجھ سے کوشش کریں لِتُشْرِكَ بِيْ : کہ تو شریک ٹھہرائے میرا مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تجھے بِهٖ عِلْمٌ : اس کا کوئی علم فَلَا تُطِعْهُمَا : تو کہا نہ مان ان کا اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ : میری طرف تمہیں لوٹ کر آنا فَاُنَبِّئُكُمْ : تو میں ضرور بتلاؤں گا تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود)کو شریک ٹھہرا ئے جسے تُو (میرے شریک کی حیثیت سے)نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔11 میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔12
سورة العنکبوت 11 اس آیت کے متعلق مسلم، ترمذی، احمد، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ 18۔ 19 سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ (ابو سفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، نہ سائے میں بیٹھوں گی، ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے، تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی لیے اس مضمون کو سورة لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت 15) آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے۔ پھر الفاط یہ ہیں کہ " وَاِنْ جَاهَدٰكَ " اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں "۔ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اولی رد کردینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا) کا فقرہ بھی قابل غور ہے۔ اس میں ان کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تو بیشک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے، ان کا ادب و احترام کرے، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے۔ سورة العنکبوت 12 یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے، اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے۔
Top