Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 161
وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
وَّ : اور اَخْذِهِمُ : ان کا لینا الرِّبٰوا : سود وَ : حالانکہ قَدْ نُھُوْا : وہ روک دئیے گئے تھے عَنْهُ : اس سے وَاَ كْلِهِمْ : اور ان کا کھانا اَمْوَالَ : مال (جمع) النَّاسِ : لوگ بِالْبَاطِلِ : ناحق وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْهُمْ : ان میں سے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
اور سُود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا،200 اور لوگوں کےمال ناجائز طریقوں سے کھا تے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، 201اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔202
سورة النِّسَآء 200 توراۃ میں بالفاظ صریح یہ حکم موجود ہے کہ ”اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔ اگر تو کسی وقت اپنے ہمسایہ کے کپڑے گرو رکھ بھی لے تو سورج کے ڈوبنے تک اس کو واپس کردینا کیونکہ فقط وہی ایک اس کا اوڑھنا ہے، اس کے جسم کا وہی لباس ہے، پھر وہ کیا اوڑھ کر سوئے گا۔ پس جب وہ فریاد کرے گا تو میں اس کی سنوں گا کیونکہ میں مہربان ہوں“۔ (خروج باب 22 27-25) اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر توراۃ میں سود کی حرمت وارد ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسی تورات کے ماننے والے یہودی آج دنیا کے سب سے بڑے سود خوار ہیں اور اپنی تنگ دلی و سنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ سورة النِّسَآء 201 غالباً یہ اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آگے سورة انعام آیت 146 میں آنے والی ہے۔ یعنی یہ کہ بنی اسرائیل پر تمام وہ جانور حرام کردیے گئے جن کے ناخن ہوتے ہیں، اور ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کردی گئی۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اشارہ ان دوسری پابندیوں اور سختیوں کی طرف بھی ہو جو یہودی فقہ میں پائی جاتی ہیں۔ کسی گروہ کے لیے دائرہ زندگی کی تنگ کردیا جانا فی الواقع اس کے حق میں ایک طرح کی سزا ہی ہے۔ (مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سورة انعام 122) سورة النِّسَآء 202 یعنی اس قوم کے جو لوگ ایمان و اطاعت سے منحرف اور بغاوت و انکار کی روش پر قائم ہیں ان کے لیے خدا کی طرف سے دردناک سزا تیار ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں جو عبرتناک سزا ان کو ملی اور مل رہی ہے وہ کبھی کسی دوسری قوم کو نہیں ملی۔ دو ہزار برس ہوچکے ہیں کہ زمین پر کہیں ان کو عزت کا ٹھکانا میسر نہیں۔ دنیا میں تِتّر بِتّر کردیے گئے ہیں اور ہر جگہ غریب الوطن ہیں۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ دنیا کے کسی نہ کسی خطہ میں ذلت کے ساتھ پامال نہ کیے جاتے ہوں اور اپنی دولت مندی کے باوجود کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ پھر غضب یہ ہے کہ قومیں پیدا ہوتی اور مٹتی ہیں مگر اس قوم کو موت بھی نہیں آتی۔ اس کو دنیا میں لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی کی سزا دی گئی ہے تاکہ قیامت تک دنیا کی قوموں کے لیے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی رہے اور اپنی سرگزشت سے یہ سبق دیتی رہے کہ خدا کی کتاب بغل میں رکھ کر خدا کے مقابلہ میں باغیانہ جسارتیں کرنے کا یہ انجام ہوتا ہے۔ رہی آخرت تو انشاء اللہ وہاں کا عذاب اس سے بھی زیادہ دردناک ہوگا۔ (اس موقع پر جو شبہ فلسطین کی اسرائیلی ریاست کے قیام کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسے رفع کرنے کے لیے ملاحظہ ہو سورة آل عمران آیت 112
Top