Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 18
وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
وَلَيْسَتِ : اور نہیں التَّوْبَةُ : توبہ لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے (انکی) يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں حَتّٰى : یہاں تک اِذَا : جب حَضَرَ : سامنے آجائے اَحَدَھُمُ : ان میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہے اِنِّىْ : کہ میں تُبْتُ : توبہ کرتا ہوں الْئٰنَ : اب وَلَا : اور نہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَمُوْتُوْنَ : مرجاتے ہیں وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔ اور اسی طرح توبہ اُن کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔27
سورة النِّسَآء 27 توبہ کے معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرنو اس کی طرف منعطف ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف ان بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کھلا پائیں گے کہ ؎ ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ مگر توبہ ان کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بےخوف اور بےپروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یغرغر۔”اللہ بندے کی توبہ بس اسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ آثار موت شروع نہ ہوں“۔ کیونکہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتاب زندگی ختم ہوچکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجائے اور دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔
Top