Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہوچکا سو ہوچکا۔32 درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔33
سورة النِّسَآء 32 تمدنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ”جو ہوچکا سو ہو چکا“۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ بےعلمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو ان پر گرفت نہیں کی جائے گی، بشرطیکہ اب حکم آجانے کے بعد اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو۔ دوسرے یہ کہ زمانہ سابق کے کسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرایا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز، اور عائد شدہ ذمہ داریوں کو لازماً ساقط بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حق وراثت ساقط کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی۔ سورة النِّسَآء 33 اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد میں یہ روایات ملتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو موت اور ضبطی جائداد کی سزا دی ہے۔ اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے یہ قاعدہ کلیہ ارشاد فرمایا تھا کہ من وقع علی ذات محرم فاقتلوہ۔”جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کردو۔“ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام احمد تو اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے اور اس کا مال ضبط کرلیا جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کیا ہو تو اس پر حد زنا جاری ہوگی، اور اگر نکاح کیا ہو تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی۔
Top