Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 27
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ١۫ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يَّتُوْبَ : توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَيُرِيْدُ : اور چاہتے ہیں الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ : جو لوگ پیروی کرتے ہیں الشَّهَوٰتِ : خواہشات اَنْ : کہ تَمِيْلُوْا : پھر جاؤ مَيْلًا : پھرجانا عَظِيْمًا : بہت زیادہ
ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجّہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر دُور نکل جاوٴ۔49
سورة النِّسَآء 49 یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں۔ میراث میں لڑکیوں کا حصہ۔ بیوہ عورت کا سسرال کی بندشوں سے رہائی پانا اور عدت کے بعد اس کا ہر شخص سے نکاح کے لیے آزاد ہوجانا۔ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہونا۔ دو بہنوں کے ایک ساتھ نکاح میں جمع کیے جانے کو ناجائز قرار دینا۔ متبنّٰی کو وراثت سے محروم کرنا اور منہ بولے باپ کے لیے متبنّٰی کی بیوہ اور مطلقہ کا حلال ہونا۔ یہ اور اس طرح کی دوسری اصلاحات میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جس پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ چیخ اٹھتے تھے۔ مدتوں ان احکام پر چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں۔ شرارت پسند لوگ ان باتوں کو لے کر نبی ﷺ اور آپ کی دعوت اصلاح کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے پھرتے تھے۔ مثلاً جو شخص کسی ایسے نکاح سے پیدا ہوا تھا جسے اب اسلامی شریعت حرام قرار دے رہی تھی، اس کو یہ کہہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا تھا کہ لیجیے، آج جو نئے احکام وہاں آئے ہیں ان کی رو سے آپ کی ماں اور آپ کے باپ کا تعلق ناجائز ٹھیرا دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا۔ بیشمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کرلیا تھا۔ اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اور مذاق کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بےتاب ہوجاتے تھے۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ ایام ماہواری میں عورت کو بالکل پلید سمجھا جاتا تھا۔ نہ اس کا پکایا ہوا کھانا کھاتے۔ نہ اس کے ہاتھ کا پانی پیتے نہ اس کے ساتھ فرش پر بیٹھتے۔ بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھو جانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ ان چند دنوں میں عورت خود اپنے گھر میں اچھوت بن کر رہ جاتی تھی۔ یہی رواج یہودیوں کے اثر سے مدینہ کے انصار میں بھی چل پڑا تھا۔ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا۔ جواب میں یہ آیت آئی جو سورة بقرہ رکوع 28 کے آغاز میں درج ہے۔ نبی ﷺ نے اس آیت کی رو سے حکم دیا کہ ایام ماہواری میں صرف مباشرت ناجائز ہے۔ باقی تمام تعلقات عورتوں کے ساتھ اسی طرح رکھے جائیں جس طرح دوسرے دنوں میں ہوتے ہیں۔ اس پر یہودیوں میں شور مچ گیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ جو جو کچھ ہمارے ہاں حرام ہے اسے حلال کر کے رہے گا اور جس جس چیز کو ہم ناپاک کہتے ہیں اسے پاک قرار دے گا۔
Top