Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
(اگر یہ خدا کے قانون سے مُنّہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیّت83 کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے
سورة الْمَآىِٕدَة 83 جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانہ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کرلیے تھے۔ یہ طرز عمل جہاں جس دور میں بھی انسان اختیار کریں اسے بہرحال جاہلیت ہی کا طرز عمل کہا جائے گا۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ محض ایک جزوی علم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا خدا کے دیے ہوئے علم سے بےنیاز ہو کر جو نظام زندگی اس جزوی علم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں وہ بھی اسی طرح ”جاہلیت“ کی تعریف میں آتے ہیں جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اس تعریف میں آتے ہیں۔
Top