Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، 108یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔109
سورة الْمَآىِٕدَة 108 آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة مائدہ، 12 و 14۔ اس سلسلہ میں جوئے کی تشریح بھی 14 میں مل جائے گی۔ اگرچہ پانسے (جوئے) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیات سے آلودہ ہو۔ اور میسر کا اطلاق ان کھیلوں اور ان کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی امور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیم اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 109 اس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤخر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے شراب کی حرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے، جو سورة بقرہ آیت 219 اور سورة نساء آیت 43 میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی ﷺ نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردیں۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کردیں۔ چناچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم یہودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اسے تحفۃً دینے سے بھی منع کردیا ہے“۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم شراب کو سرکے میں کیوں نہ تبدیل کردیں ؟ آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ ”نہیں، اسے بہا دو“۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے ؟ فرمایا ”نہیں، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔ فرمایا ”اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“۔ ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مبتاعھا و عاصرھا و معتصرھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔”اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کرلے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کرلے جائی گئی ہو“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداءً آپ نے ان برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح نافذ ہوگیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھا دی۔ خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجازاً گیہوں، جو، کشمش، کھجور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی ﷺ نے حرمت کے اس حکم کو تمام ان چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چناچہ حدیث میں حضور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔”ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے“۔ کل شرابٍ اسکر فھو حرام۔”ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“۔ وانا انھی عن کل مسکرٍ۔”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“۔ حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل۔”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“۔ نیز نبی ﷺ نے یہ اصول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام۔”جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفل الکف منہ حرام۔”جس چیز کا ایک پورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چلو پینا بھی حرام ہے“۔ نبی ﷺ کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اس جرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اسے جوتے، لات، مکے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کے سنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں آپ ﷺ کے زمانہ میں اس جرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں 40 کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے 80 کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک ؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعی ؒ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ابن حنبل ؒ اور ایک دوسری روایت کے مطابق امام شافعی ؒ 40 کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی ؓ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔ شریعت کی رو سے یہ بات حکومت اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر ؓ کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔
Top