Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ
كَذٰلِكَ : اسی طرح مَآ اَتَى الَّذِيْنَ : نہیں آیا ان لوگوں کے پاس مِنْ قَبْلِهِمْ : جو ان سے پہلے تھے مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا قَالُوْا : مگر انہوں نے کہا سَاحِرٌ : جادوگر اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون
یونہی ہو تا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون 49
سورة الذّٰرِیٰت 49 یعنی آج پہلی مرتبہ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی زبان سے آخرت کی خبر اور توحید کی دعوت سن کر لوگ اسے ساحر اور مجنون کہہ رہے ہیں۔ رسالت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے رسول آنے شروع ہوئے ہیں، آج تک جاہل لوگ اسی ایک حماقت کا پوری یکسانی کے ساتھ اعادہ کیے چلے جا رہے ہیں۔ جس رسول نے بھی آ کر خبردار کیا کہ تم بہت سے خداؤں کے بندے نہیں ہو بلکہ صرف ایک ہی خدا تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے، جاہلوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے افسوں سے ہماری عقلوں کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ جس رسول نے بھی آ کر خبردار کیا کہ تم غیر ذمہ دار بنا کر دنیا میں نہیں چھوڑ دیے گئے ہو بلکہ اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد تمہیں اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضر ہو کر اپنا حساب دینا ہے اور اس حساب کے نتیجہ میں اپنے اعمال کی جزا و سزا پانی ہے، نادان لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے، اس کی عقل ماری گئی ہے، بھلا مرنے کے بعد ہم کہیں دوبارہ بھی زندہ ہو سکتے ہیں ؟
Top