Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 57
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَسْتَطِعْ : نہ طاقت رکھے مِنْكُمْ : تم میں سے طَوْلًا : مقدور اَنْ يَّنْكِحَ : کہ نکاح کرے الْمُحْصَنٰتِ : بیبیاں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن (جمع) فَمِنْ : تو۔ سے مَّا : جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں مِّنْ : سے فَتَيٰتِكُمُ : تمہاری کنیزیں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن۔ مسلمان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کو بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض (ایک دوسرے سے فَانْكِحُوْھُنَّ : سو ان سے نکاح کرو تم بِاِذْنِ : اجازت سے اَھْلِهِنَّ : ان کے مالک وَاٰتُوْھُنَّ : اور ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ : ان کے مہر بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق مُحْصَنٰتٍ : قید (نکاح) میں آنے والیاں غَيْرَ : نہ کہ مُسٰفِحٰتٍ : مستی نکالنے والیاں وَّلَا : اور نہ مُتَّخِذٰتِ : آشنائی کرنے والیاں اَخْدَانٍ : چوری چھپے فَاِذَآ : پس جب اُحْصِنَّ : نکاح میں آجائیں فَاِنْ : پھر اگر اَتَيْنَ : وہ کریں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی فَعَلَيْهِنَّ : تو ان پر نِصْفُ : نصف مَا : جو عَلَي : پر الْمُحْصَنٰتِ : آزاد عورتیں مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب (سزا) ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : اس کے لیے جو خَشِيَ : ڈرا الْعَنَتَ : تکلیف (زنا) مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبرو کرو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
تو ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ہرگز گمان نہ کر کہ وہ زمین میں عاجز کرنے والے ہیں اور ان کا ٹھکانا آگ ہے اور بلاشبہ وہ بری لوٹ کر جانے کی جگہ ہے۔
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔۔ : مشرکین عام طور پر ہمیشہ تعداد اور قوت میں زیادہ رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی یہی حال تھا کہ مسلمان کمزور تھے، ان سے خوف زدہ رہتے تھے، تو ایسے حالات میں ان کے لیے خلافت کا وعدہ عجیب اور ناممکن سی بات نظر آتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کافروں کے متعلق یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ وہ اللہ کو مقابلے میں عاجز کردیں گے، یہ لوگ جتنی تعداد اور قوت میں ہوں، جتنی چال بازیاں اور فوجیں اکٹھی کرلیں، مقابلہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ کسی صورت مقابلے میں عاجز نہیں کرسکتے۔ کعب ؓ کا شعر ہے ؂ ھَمَّتْ سَخِیْنَۃُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّھَا فَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ ”سخینہ (قریش) نے ارادہ کیا کہ اپنے رب سے مقابلے میں غالب آئیں، مگر اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا تو ہر صورت مغلوب ہی ہوگا۔“ [ مستدرک حاکم : 3؍488، ح : 6065، حاکم، ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے ] یہ حال تو دنیا میں ہوگا اور آخری مقام ان کا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کے لیے بہت بری جگہ ہے۔
Top