Tafseer-al-Kitaab - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَعْثَرْنَا : ہم نے خبردار کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر لِيَعْلَمُوْٓا :تا کہ وہ جان لیں اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : قیامت لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهَا : اس میں اِذْ : جب يَتَنَازَعُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے بَيْنَهُمْ : آپس میں اَمْرَهُمْ : ان کا معاملہ فَقَالُوا : تو انہوں نے کہا ابْنُوْا : بناؤ عَلَيْهِمْ : ان پر بُنْيَانًا : ایک عمارت رَبُّهُمْ : ان کا رب اَعْلَمُ بِهِمْ : خوب جانتا ہے انہیں قَالَ : کہا الَّذِيْنَ غَلَبُوْا : وہ لوگ جو غالب تھے عَلٰٓي : پر اَمْرِهِمْ : اپنے کام لَنَتَّخِذَنَّ : ہم ضرور بنائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّسْجِدًا : ایک مسجد
اور (پھر دیکھو، ایسا ہوا کہ ان کی بات پوشیدہ نہ رہ سکی) ، اس طرح ہم نے (اہل شہر کو) ان (کے حال) سے مطلع کیا۔ تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے) میں کچھ بھی شبہ نہیں۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت لوگ ان کے بارے میں آپس میں بحث کرنے لگے (کہ ان کے معاملے میں کیا کیا جائے) ۔ (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان کے (غار کے) اوپر ایک دیوار چن دو (اور ان کے حال کی زیادہ تفتیش نہ کرو) ۔ ان کے حال کو ان کا رب (ہی) بہتر جانتا ہے۔ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے اوپر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔
[6] وہ شخص جو سکہ لے کر کھانا خریدنے چلا تھا جب بازار پہنچا تو کیونکہ قرنہا قرن کی مدت گزر چکی تھی، شہریوں کے وضع، لباس، زبان اور مکانات سب کی ہیئت بالکل بدل چکی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا اور بادشاہت اب بجائے دشمنان مسیحیت کے خود مسیحیوں کی قائم تھی، وہ شخص اپنی سج دھج، لباس اور زبان سے ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے جیب سے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لئے نکالا تو لوگوں کی حیرت بدرجہا بڑھ گئی۔ سب نے اسے گھیر لیا اور اسے مجبوراً اپنا پتہ بتانا پڑا اور اپنی سرگزشت دہرانی پڑی۔ کچھ لوگ اس کے بیان کی تصدیق کے لئے اس کے ساتھ غار کے دہانے تک آئے۔ اب جو اصحاب کہف کو معلوم ہوا کہ وہ کئی سو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے مسیحی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ [7] یعنی اصحاب کہف کے بارے میں۔ [8] انداز کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اصحاب کہف کس مرتبہ کے انسان ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں لہذا مناسب یہی ہے کہ انھیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے پر دیوار چن دو ۔ [9] اس سے مراد اہل حکومت اور مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں عیسائی موحدین کی بات نہ چلی کیونکہ اس وقت کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی کا پورا زور تھا۔ [10] چناچہ ان شرک کے علم برداروں نے فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنادیا جائے۔ پرانے بتوں کی جگہ یہ نئے معبود انھیں پوجنے کو مل گئے۔
Top