Tafseer-al-Kitaab - Al-Kahf : 42
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا
وَاُحِيْطَ : اور گھیر لیا گیا بِثَمَرِهٖ : اس کے پھل فَاَصْبَحَ : پس وہ رہ گیا يُقَلِّبُ : وہ ملنے لگا كَفَّيْهِ : اپنے ہاتھ عَلٰي : پر مَآ اَنْفَقَ : جو اس نے خرچ کیا فِيْهَا : اس میں وَھِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گرا ہوا عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتریاں وَيَقُوْلُ : اور وہ کہنے لگا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش لَمْ اُشْرِكْ : میں شریک نہ کرتا بِرَبِّيْٓ : اپنے رب کے ساتھ اَحَدًا : کسی کو
اور (دیکھو، ایسا ہی ہوا کہ) اس (کے باغ) کی پیداوار کو (آفت نے) گھیر لیا تو وہ اس لاگت پر جو اس نے باغ (کی درستگی) میں لگائی تھی اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا اور (باغ کا یہ حال ہوگیا کہ) وہ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا پڑا تھا۔ اب وہ کہنے لگا، '' اے کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا !''
[13] جب انسان اللہ سے غافل ہوتا ہے تو اس گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ جو سازوسامان اور مال و اسباب مجھے حاصل ہیں وہ میری محنت، تدبر اور صلاحیت کا نتیجہ ہیں۔ یہی خناس اس شخص کے دماغ میں بھی سمایا ہوا تھا جس کا یہاں ذکر ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ وہ کونسا شرک تھا جس پر وہ اظہار پشیمانی کررہا ہے کیونکہ اس پورے قصہ میں کسی دیوی دیوتا کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا شرک یہ تھا کہ اس نے فاعل حقیقی اور مسبب الاسباب اللہ کو چھوڑ کر اپنے باغ اور کھیتی کو اپنی محنت و صلاحیت کا ثمر سمجھا۔
Top