Tafseer-al-Kitaab - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور ہم نے (تو) ان لوگوں کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے (ہو گزرے) ہیں۔ اللہ تو ضرور (ان لوگوں کو) معلوم کر کے رہے گا جو (اظہار ایمان میں) سچے ہیں اور وہ جھوٹوں کو بھی معلوم کر کے رہے گا۔
[2] یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ سچوں کو بھی جانتا ہے اور جھوٹوں کو بھی، پھر آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ازروئے عدل و انصاف سزایا جزا کا فیصلہ برے یا اچھے فعل کے عملاً ظہور کے بعد ہی ہونا چاہئے نہ کہ محض برے اور اچھے کام کی صلاحیت اور استعداد پر۔ لہذا اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بناء پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص میں امانت دار ہونے کی صلاحیت ہے اور فلاں میں خائن ہونے کی جب تک امانت داری یا خیانت کا عملاً ظہور نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کی بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بناء پر نہیں دئیے جاتے کہ فلاں شخص اعلیٰ درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا بلکہ اس علم کی بناء پر دئیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے مومن اور مجاہد ہونا ثابت کردیا۔
Top