Tafseer-al-Kitaab - Yaseen : 47
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ١ۖۗ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے اَنْفِقُوْا : خرچ کرو تم مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ ۙ : اللہ قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ان لوگوں سے جو ایمان لائے (مومن) اَنُطْعِمُ : کیا ہم کھلائیں مَنْ : (اس کو) جسے لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا اَطْعَمَهٗٓ ڰ : اسے کھانے کو دیتا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر۔ صرف فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (کچھ اس کی راہ میں غرباء پر بھی) خرچ کرتے رہا کرو تو یہ کافر ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو کھلائیں جنہیں اللہ چاہے تو آپ (بہت کچھ) کھلا سکتا ہے ؟ تم لوگ تو بس صریح گمراہی میں (پڑے ہوئے) ہو۔
[18] منکرین بطور تمسخر کہتے کہ وہ اللہ کی مشیت کے خلاف کرنا نہیں چاہتے۔ اگر اس کی مشیت ہوتی تو ان کو فقیر و محتاج اور ہمیں غنی و تونگر نہ بناتا۔ پھر ہم انہیں کیوں کھلائیں جنہیں اللہ نے کھانے کو نہیں دیا۔ ان کا یہ طنز نہایت مہمل تھا کیونکہ اللہ کی رزاقی بھی تو اس کی ہر صفت کی طرح اس عالم اسباب میں انسانوں ہی کے واسطے سے ظہور کرتی ہے۔ مسلمانوں نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں رزاق بلاواسطہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں۔ فقیر کی آزمائش صبر سے اور غنی کی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے۔ [19] یعنی تم مسلمان خود صریح گمراہی میں پڑے ہو کہ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو جن کا اللہ پیٹ بھرنا نہیں چاہتا۔
Top