Tafseer-al-Kitaab - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور (دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریم کی (دیتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرماں بردار بندوں میں سے تھی
[13] یعنی بغیر اس کے کہ ان کا تعلق کسی مرد سے ہوتا، ان کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی۔ [14] یعنی کامل مردوں کی طرح بندگی و اطاعت پر ثابت قدم تھی۔ اس سورت میں جو مثالیں دیں گئی ہیں ان کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ کا دین بالکل بےلاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لئے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لئے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملہ میں خاص طور پر ازواج مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امت مسلمہ میں وہی ہوتا جو نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کا ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی کی ہے، جو اگرچہ اللہ کے ایک بد ترین دشمن کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انہوں نے قوم فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کرلیا، اس لئے فرعون جیسے اکفرا لکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنادیا۔ تیسری مثال مریم (علیہ السلام) کی ہے جنہیں یہ مرتبہ عظیم اس لئے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لئے انہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ مریم (علیہ السلام) کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے ّکی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کردیا گیا ہو اور اسے بتادیا گیا ہو کہ اس کا رب اس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب مریم (علیہ السلام) نے اس پر کوئی واویلا نہ کیا بلکہ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ بر داشت کرنا قبول کرلیا جو اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لئے برداشت کرنا ناگزیر تھا۔
Top