بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-al-Kitaab - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر، کیوں حرام کئے لیتے ہو اس چیز کو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے ؟ کیا اس لئے کہ تم اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو ؟ اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
[1] شان نزول کی دو مختلف روایتیں ہیں۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کی دلجوئی کے لئے یہ عہد کرلیا تھا کہ فلاں نعمت سے آئندہ تمتع نہ کریں گے۔ عام حالات میں تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی لیکن کیونکہ پیغمبر کا قول و فعل دین میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا ہر عمل پوری امت کے لئے مثال اور نمونہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسی بات کہے یا کرے جو بال برابر بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود سے متجاوز ہو ورنہ پوری امت کے لئے ایک غلط مثال قائم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فعل پر گرفت فرمائی۔ اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیغمبر کو بھی بطور خود کسی چیز کو حلال یا حرام کردینے کا اختیار نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو۔ [2] یعنی ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا فعل اگرچہ گناہ نہ تھا لیکن پیغمبرانہ شان کے شایان نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف اس پر ٹوک دیا اور آپ ﷺ کی اس لغزش کو معاف کردیا۔
Top