Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ
: اور تم ان سے لڑو
حَتّٰى
: یہانتک کہ
لَا تَكُوْنَ
: نہ رہے
فِتْنَةٌ
: کوئی فتنہ
وَّيَكُوْنَ
: اور ہوجائے
الدِّيْنُ
: دین
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
فَاِنِ
: پس اگر
انْتَهَوْا
: وہ باز آجائیں
فَلَا
: تو نہیں
عُدْوَانَ
: زیادتی
اِلَّا
: سوائے
عَلَي
: پر
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور جنگ کرو تاآنکہ فتنہ
255
باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں ظالموں کے علاوہ کسی پر دست درازی نہ کی جائے
255
فتنہ سے مراد ہر وہ مزاحمت اور قوت ہے جو تبلیغ و اشاعت اسلام کی راہ میں آڑے آئے جس سے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل نہیں۔ بلکہ اسلام کی اشاعت میں جو قوت رکاوٹ بنے اس سے جارحانہ جنگ کرنا ضروری ہے۔ تاآنکہ ایسی رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہو۔ البتہ جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں۔ ان پر تمہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقاید یا دین یا مذہب سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرلیں کیونکہ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیت کی بنا پر مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لہذا اسے ایک امن پسند مذہب نہیں کہا جاسکتا۔ عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آ کر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان کا رخ باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا۔ لیکن ان کی جنگ جوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ اسلام نے یہ کیا کہ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوسرا دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ بالفاظ دیگر ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ تاآنکہ وہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔ یہ ہے ان عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں۔ بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام سب غیر مسلموں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتا بلکہ اس نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال، ان کا کھانا جائز اور کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ جبکہ مشرکوں کی کوئی چیز جائز نہیں۔ اہل کتاب پر جنگ سے بیشتر تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر دارالاسلام میں اطاعت گزار بن کر رہیں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ دینا یا اس کی متبادل صورت اختیار کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری شرط یہ ہے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی (
1
) اسلام قبول کرلیں، اگر یہ منظور نہ ہو تو (
2
) دارالاسلام کو چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (
3
) جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر
2
اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔ مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اس کی صفات میں دوسری چیزوں کو بھی شریک بناتا ہو مندرجہ بالا شرائط سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں سب غیر مسلم یکساں نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے اور مندرجہ بالا دونوں آیات جن سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے۔ مشرکین کے معاملہ میں مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اہل کتاب سے اور مشرکین پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نگاہوں میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ بلحاظ اقامت پذیری دارالاسلام کی تین اقسام ہیں۔
1
۔ حرمین یعنی حرم مکہ اور مدینہ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں، مشرک ہوں یا اہل کتاب یہاں اقامت اختیار نہیں کرسکتے۔
2
۔ جزیرہ العرب یا حجاز، اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ اور اگر بغاوت وغیرہ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔
3
۔ باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا ہے۔ (اسلام کے قانون جنگ و صلح ص
148
) ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے :۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ عرب کے اکثر قبائل جنگ جو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگ جو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے۔ نہتے تھے اور فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشراف میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداًء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جس کی شہادت درج ذیل آیات ہیں۔
1
۔ آیت ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ
216
)
2
۔ البقرة :
216
) تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔
2
۔ آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ
38
)
9
۔ التوبہ :
38
) اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین سے چمٹے جاتے ہو۔ دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کی جنگ جوئی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
3
۔ آیت ( كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۙ )
8
۔ الانفال :
5
) جیسا کہ آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ کو آپ ﷺ کے گھر سے نکالا اور بلاشبہ مومنوں کا ایک گروہ اس (جنگ) کو ناپسند کر رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات ظاہر ہوجانے کے بعد آپ سے جھگڑنے لگے۔ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔
4
۔ اسی بنا پر آپ کو حکم ہوتا ہے کہ : آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ
65
)
8
۔ الانفال :
65
) اے نبی ! مومنوں کو جنگ کرنے کے لیے رغبت دلاؤ۔ غور فرمائیے کہ اگر مسلمان پہلے ہی جنگ جو تھے تو ان آیات اور احکامات کی کیا ضرورت تھی ؟ اور یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اصل بات یہی تھی کہ اسلام کے یہ ابتدائی جانثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ پھر جب ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے ان پر جنگ فرض کی گئی تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکی دور میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔ اس اعتراض کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ جو وہی لوگ کہلائے جاسکتے ہیں جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے دور نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔
1
۔ غزوہ بدر، احد اور خندق خالصتاً مدافعانہ جنگیں تھیں جو طوعاً و کرہاً مسلمانوں کو لڑنا پڑیں۔
2
۔ غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر سب یہودیوں کی بد عہدیوں اور فتنہ انگیزیوں کی بنا پر لڑی گئیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہتے تو کبھی بپا نہ ہوتیں۔
3
۔ غزوہ مکہ کا سبب قریش کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی عہد شکنی تھی۔
4
۔ سریہ مؤتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحد کی حفاظت کے لیے پیش آئیں اور وہ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر خاموش رہ سکتی ہے۔ یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ نہیں کرتی۔
5
۔ غزوہ حنین، اوطاس اور طائف میں دشمن نے خود مسلمانوں کو جنگ کے لیے للکارا تھا اور آپ نے پردیس میں کافروں سے نقد رقم اور اسلحہ بطور ادھار اور عاریتاً لے کر ان جنگوں کو نبھایا تھا۔ (موطا، ابو داؤد، باب الضمانہ) غور فرما لیجئے کہ ان میں کونسی جنگ کو جارحانہ یا ظالمانہ جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے ؟ اب رہا دارالاسلام اور دارالحرب کا مسئلہ، بلاشبہ یہ اصطلاحیں فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں لیکن انہیں عام اسلام اور عام جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی ایک مغالطے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
1
۔ جو غیر مسلم حکومتیں غیر جانبدر رہنا چاہیں اور مسلمانوں کو نہ خود چھیڑیں اور نہ مسلمانوں کے خلاف حمایت کریں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی اسلام ان سے لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس اس سے بہتر سلوک کی تائید کرتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے : آیت ( لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ )
60
۔ الممتحنة :
8
) اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کے سلسلہ میں تم سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ گویا دارالحرب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے اور امن پسند ممالک عموماً غیر جانبدار ہی رہتے ہیں۔ لہذا دارالحرب آدھے سے بھی کم رہ گیا۔
2
۔ باقی حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہوسکتے ہیں جن سے صلح کے معاملات طے پائے ہوں اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بدعہدی نہ کریں۔ ان سے جنگ کی قطعاً اجازت نہیں۔
3
۔ اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقعہ دارالحرب ہیں اور وہ وہی ممالک ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے مخالف ہوں یا مخالفوں کا ساتھ دیتے ہوں، اور وہ صلح پر بھی آمادہ نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسے ممالک تھوڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک پر بھی حالات جنگ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حالات جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی قریب ترین مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریہ کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ تو پیدا کردیا ہے۔ لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرجاتا ہے۔ آج کی مہذب اقوام کے نزدیک طاقت کے ذریعہ اپنے مفادات کی حفاظت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روس نے یہ سمجھا کہ گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنا اس کا حق ہے۔ لہذا افغانستان، ایران اور پاکستان پر اس کا تسلط ہونا چاہیے۔ مگر متعلقہ ممالک یا حریف ممالک نے اس کے اس حق کو ناجائز سمجھا اور تسلیم نہ کیا۔ افغانستان میں جنگ چھڑ گئی اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔ لیکن اسلام ایسے دنیوی اور ذاتی مفادات کے لیے بھی جنگ کرنے کا قطعاً روادار نہیں، اس کے نزدیک جنگ درج ذیل وجوہ کی بنا پر لڑی جاسکتی ہے : (
1
) اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے مدافعانہ جنگ جس میں سرحدوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔ (
2
) کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان جب امداد کے لیے پکاریں اور انہیں احکام شرعیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیش آرہی ہوں۔ (
3
) معاہدہ کی خلاف ورزی، عہد شکنی یا سفیر کے قتل کی بنا پر اور یہ سب باتیں دراصل جنگ کا الٹی میٹم ہوتی ہیں۔ انہی مقاصد کے لیے دور نبوی میں جنگیں لڑی گئی تھیں اور یہ سب فتنہ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شق ایسی نہیں جسے ہم کسی دنیوی مفاد کی جنگ کہہ سکیں۔ گویا اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ اسلام نے جنگ کرنے کے بھی اصول بتلا دیئے ہیں اور جنگ سے رک جانے یا عدم جواز کے بھی اور مسلمانوں کو بہرحال ان پر ہی کاربند رہنا لازم ہے۔ پھر جن صورتوں میں اسلام نے جنگ کرنے کی اجازت یا حکم دیا ہے وہاں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جاتے ہی جنگ شروع کردو۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ دشمن پر تین شرطیں پیش کرو۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم مسلمان بن جاؤ اور ہمارے بھائی بند بن کر اپنا علاقہ اور اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسلام دشمنی چھوڑ دو اور اپنی مذہبی آزادی بحال رکھو اور اطاعت گزاری کی علامت اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تیسری اور آخری صورت جنگ ہے۔ ان حدود وقیود کے بعد بھی کیا یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام ایک جنگ جو مذہب ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی پے در پے عہد شکنیوں کی بنا پر خیبر پر چڑھائی کی تو حضرت علی ؓ کو جھنڈا دے کر فرمایا کہ اگر تمہاری تبلیغ سے ایک آدمی بھی اسلام لے آئے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتا لفھم) اس حدیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔
1
۔ یہ جنگ ناگزیر حالات میں کی گئی۔ جن کی بنیاد یہود کی پے در پے عہد شکنیاں تھیں۔
2
۔ مسلمانوں کا جنگ سے مقصد نہ کشور کشائی ہے اور نہ لوٹ مار۔
3
۔ مسلمانوں کے ہاں محبوب ترین مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی رضا ورغبت سے اسلام لے آئیں۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر کم از کم اسلام دشمنی چھوڑ دیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو آخری چارہ کار کے طور پر جنگ کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے بدعہد اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جنگ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔
256
ایسی رکاوٹیں ختم ہونے یا ان پر غلبہ پانے کے بعد بھی صرف ایسے آدمیوں کو سزا دینے کی اجازت ہے جو مسلمانوں پر جبر و تشدد کرنے اور انہیں ختم کردینے میں حد درجہ آگے بڑھے ہوئے یا سازشیں کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسے فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کے باوجود آپ نے چار آدمیوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا، یہ چاروں اشتہاری مجرم تھے۔ ان میں سے ایک عبداللہ بن خطل تھا جو تین ایسے جرائم میں ملوث تھا جن کی سزا اسلام میں قتل ہے اور وہ تین جرائم یہ تھے (
1
) وہ اسلام سے پھر گیا تھا (
2
) اس نے خون ناحق کیا تھا اور (
3
) آپ ﷺ کی ہجو کرتا تھا۔ یعنی توہین رسالت کا مجرم تھا۔ چناچہ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ ﷺ سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص کہنے لگا : یا رسول اللہ ﷺ ! عبداللہ بن خطل کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے قتل کردو۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی الرایہ یوم الفتح) ایسے اشتہاری مجرموں کی مکہ بلکہ کعبہ میں قتل کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاید یہ وہی ساعت ہو جس کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ مکہ میرے لیے حلال کیا گیا ہے وہ بھی صرف چند ساعت کے لیے، وہ پہلے بھی ارض حرم تھا اور بعد میں تاقیامت ارض حرم ہی رہے گا اور دوسری یہ کہ ایسے اشتہاری مجرم کو کعبہ کی حرمت بھی پنا نہیں دے سکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top