Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے تہمت 12 کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک ٹولہ ہے۔ اسے تم اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا 13 اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا 14 ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
12 یہاں آیت نمبر 11 سے لے کر آیت نمبر 20 تک افک کے واقعہ سے متعلق دس آیات مذکور ہیں۔ جو اس سورت کا شان نزول بنیں۔ ابتدا میں تہمت، قذف زنا کے احکام اور سزا بتلانے کے بعد اس واقعہ کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہے۔ اس کی ابتداء ہی ان الفاظ سے کی گئی (اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ 11؀) 24 ۔ النور :11) یعنی یہ جو کچھ افواہیں،۔۔ اور قصے گھڑے گئے۔ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ 13 یہ ٹولہ کون لوگ تھے۔ یہ حضرت عائشہ ؓ ہی کی زبانی سنئے : 1۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس آیت میں (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11؀) 24 ۔ النور :11) سے مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول ہے (رئیس المنافقین) ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) 2۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے۔ مسطح بن اثاثہ، اور حسان بن ثابت اور تیسرا عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا جو کھود کھود کر پوچھا پھر اس پر حاشیے چڑھاتا۔ وہ اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11؀) 24 ۔ النور :11) سے وہ اور حمنہ بنت جحش مراد ہیں (عبداللہ بن ابی منافق کے علاوہ تینوں پر حد قذف لگی تھی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) 3۔ مسروق سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت (مشہور شاعر) حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گئے اور یہ شعر سنایا حصان رزان ماتزن بریبہ۔۔ و نصبح غرثی من الحوم الغوافل (حضرت عائشہ ؓ پاکدامن، عقلمند اور ہر شک و شبہ سے بالا ہیں۔ وہ بھولی بھالی معصوم عورتوں کا گوشت کھانے (ان پر تہمت لگانے یا ان کا گلہ کرنے) سے بھوکی ہی رہتی ہیں۔ یہ شعر سن کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : مگر (حسان) تم تو ایسے نہیں۔ میں (مسروق) نے حضرت عائشہ ؓ نے کہا۔ آپ ایسے شخص کو کیوں آنے دیتی ہیں جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11؀) 24 ۔ النور :11) حضرت عائشہ ؓ نے کہا : اسے اندھے پن سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا (حضرت حسان آخری عمر میں اندھے ہوگئے تھے) پھر یہ بھی کہا : کہ حسان رسول اللہ کی طرف سے (کافروں کو ان کی ہجو کا) جواب دیتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت حضرت ابوہریرہ ؓ سے گواہی چاہتے تھے۔ کہتے تھے : ابوہریرہ ؓ ! تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم نے رسول اللہ یہ فرماتے نہیں سنا : حسان ! تو اللہ کی طرف سے کافروں کو جواب دے۔ یا اللہ ! روح القدس سے حسان کی مدد کر ابوہریرہ ؓ نے کہا : ہاں (بخاری۔ کتاب الصلوہ باب التعر فی المسجد) 14 مندرجہ بالا حضرت عائشہ ؓ سے منقول احادیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس فتنہ کا بانی مبانی عبداللہ بن ابی منافق تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس غزوہ بن مصطلق میں جتنے زیادہ منافق شامل ہوئے تھے۔ دوسرے کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے ہی اس بہتان کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا تھا۔ جس سے کئی سادہ لوح مخلص مسلمان بی متاثر ہوگئے تھے۔ مثاتر ہونے والے مسلمانوں کے نام تو کتب احادیث و سیر میں سے ہیں اور وہ تھے حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور ام المومنین زینب بنت جحش کی بہن حمنہ بنت جحش یعنی روایت کے مطابق ان تینوں کو قذف کی حد بھی لگی تھی۔ لیکن منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی کے سوا کسی کا نام کتب تاریخ و سیر میں نہیں ملتا۔ نہ ہی منافقوں میں سے کسی کو حد لگی تھی۔ ان کا معاملہ بس اللہ کے سپرد تھا۔ جب یہ فتنہ گھڑ گیا تو منافق خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ تھے بعض اظہار افسوس کے طور پر، بعض بات چھیڑ دیتے اور خود چپکے سے سنا کرتے، اور مسلمان یہ باتیں سن کر باعض تردد میں پڑجاتے، بعض خاموش رہتے اور بہت سے یہ باتیں سن کر جھٹلا دیتے۔ اور اس قصہ کا بڑا بوجھ اٹھانے والے اور بانی عبداللہ کا یہ حال تھا کہ لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے اپنا دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ اس قصہ میں کسی نے جتنا حصہ لیا اسی کے مطابق اسے عذاب عظیم ہوگا۔ ان حالات میں عام انسانی سوچ کے مطابق چاہئے تو تھا اللہ تعالیٰ منافقوں کو اس اخلاقی گراوٹ پر غضب ناک گرفت فرماتا یا مسلمانوں کو جوابی حملے سے اکساتا مگر اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر علیم اور حکیم ہے۔ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں رخنے موجود ہیں۔ ان کو بھر کر اس اخلاقی محاذ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنانا چاہئے۔ اسی لئے اس سورة میں بہت سے ستر و حجاب کے احکام نازل ہوئے جو آگے آرہے ہیں۔
Top