Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ : ان گھروں میں اَذِنَ : حکم دیا اللّٰهُ : اللہ اَنْ تُرْفَعَ : کہ بلند کیا جائے وَيُذْكَرَ : اور لیا جائے فِيْهَا : ان میں اسْمُهٗ : اس کا نام يُسَبِّحُ : تسبیح کرتے ہیں لَهٗ : اس کی فِيْهَا : ان میں بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
(یہ) ان گھروں (مساجد وغیرہ) میں ہوتے ہیں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان میں اللہ کا نام بلند کیا جائے اور اس کا ذکر کیا جائے 62 ان (مساجد) میں صبح و شام ایسے لوگ اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔
62 بعض علماء نے یہاں بیوت سے مراد مساجد لی ہیں اور ترفع سے مراد انھیں تعمیر کرنا لیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حق کے متلاشی رہتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو وہ انھیں تسلیم کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں ایسے لوگ مساجد میں پائے جاتے ہیں۔ انھیں دیکھنا ہو تو اللہ کی مساجد میں دیکھو جہاں ہر وقت اللہ کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اور صبح و شام وہاں ایسے لوگ نمازوں اور تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ توجیہہ بھی درست ہے مگر یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جس کی بنا پر بیوت کے لفظ کو صرف مساجد تک محدود کردیا جائے لہذا اکثر علماء کے نزدیک بیوت سے مراد سب مومنوں کے گھرانے ہیں۔ اور ہر گھر میں اللہ کا ذکر بھی ہوتے رہنا چاہئے اور تسبیح و تہلیل بھی۔ حتیٰ کہ فریضہ نمازوں (یعنی جو نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے جنہیں ہم اپنی زبان میں ہر نماز کی فرض رکعات کہتے ہیں) کے علاوہ نماز کا باقی حصہ سنت، نوافل وغیرہ) یا نفلی نمازیں بھی اپنے اپنے گھروں میں ادا کرنا بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص مساجد میں جانے سے معذور ہو تو وہ فرض نمازیں بھی گھر پر (اکیلے یا باجماعت) ادا کرسکتا ہے۔ جب کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : 1۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جب سے مجھے ہوش آیا میں نے اپنے والدین کو مسلمان ہی پایا۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن آپ ہمارے ہاں نہ آئے ہوں۔ صبح و شام آپ دو وقت تشریف لاتے پھر ابوبکر صدیق ؓ کے جی میں آیا تو انہوں نے اپنے صحن میں ایک مسجد بنائی وہ وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھتے۔ مشرکوں کی عورتیں کھڑی ہو کر سنا کرتیں ان کے بچے بھی سنتے اور تعجب کرتے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو دیکھتے رہتے ابوبکر صدیق ؓ ایک رونے والے آدمی تھے تو اپنی آنکھوں سے آنسو روک نہ سکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مشرکین قریش سٹ پٹاگئے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستقاء فی المسجد) 2۔ محمود بن ربیع الانصاری کہتے ہیں کہ عتبان بن مالک رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا : یارسول اللہ !~ میرے بینائی بگڑ گئی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برسے تو نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے۔ لہذا میں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا کہ ان کو نماز پڑھا سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تو اس جگہ کو مسجد بنا لوں آپ نے فرمایا : اچھا میں انشاء اللہ یہ کام کروں گا چ 2 نانچہ (دوسرے دن) صبح آپ اور ابوبکر صدیق ؓ دونوں دن چڑھے میرے ہاں آئے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپ تشریف لائے اور بیٹھنے سے پہلے ہی پوچھا : اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں ؟ عتبان نے آپ کو گھر کا ایک کونا بتلایا۔ آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی آپ نے دو رکعت (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا۔ پھر ہم نے حلیم تیار کرکے آپ کو روک لیا۔ محلہ کے اور آدمی بھی گھر میں جمع ہوگئے۔ ان میں ایک آدمی کہنے لگے : مالک بن دخنیشن یا دخشن کہاں ہے ؟ کسی نے (عتبان) کہا : وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محنت نہیں رکھتا آپ نے فرمایا : ایسا مت کہو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ خالصتؤہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے عتبان کہنے لگے : اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اس کی توجہ اور ہمدردی منافقوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے آگ کو اس شخص پر حرام کردیا ہے جو خالصتؤہ اللہ کی رضا مندی کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب المساجد فی البیوت)
Top