Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ پاکدامن عورتوں 7 پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور آئندہ کبھی ان شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ بدکردار 8 ہیں۔
7 یہاں محصین کا لفظ صرف پاکباز یا بےقصور کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ہو۔ حتیٰ کہ بعض علماء کے نزدیک پاکباز لونڈی پر تہمت زنا لگانا بھی اس شامل ہے۔ اور یہ حکم صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہے کہ وہ پاکباز مردوں پر ایسی تہمت نہ لگائیں اور رسول اللہ ﷺ نے اس گناہ کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری۔ کجتاب الوصایا۔ باب۔۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا 10؀ ) 4 ۔ النسآء :10) زنا کی شہادت سے مراد تو ایسی شہادت ہے جس میں وضاحت کے ساتھ فعل زنا کی شہادت ہو اور تہمت زنا کی شہادت سے مراد ایسے قرائن کی شہادت ہے جیسے کوئی یہ گواہی ہے کہ میں نے فلاں اجنبی مرد اور عورت کو خلوت میں دیکھا ہے۔ یا بوس و کنار کرتے دیکھا ہے یا کوئی کسی کو ولدالزنا یا ولدالحرام کہے۔ ایسے مدعی کے لئے چار شہادتوں کا پیش کرنا ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چار شہادتیں میسر آنا نہایت مشکل ہے۔ لہذا شہادتوں کے اس سخت نصاب اور پھر سخت سزا سے اصل مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھ بھی لے تو اس کے لئے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ پردہ پوشی کرے اور مطلقاً اس کی تشہیر نہ کرے۔ یا پھر چار شہادتیں مہیا کرکے صرف حکومت کو مطیع کرے تاکہ حکومت ملزموں کا جرم ثابت ہوجانے پر انھیں سزا دے کر اس گندگی کا سدباب کرے۔ تیسری راہ اختیار کرنا یعنی عام لوگوں میں ایسی باتیں پھیلانا معاشرہ کے حق میں اور خود اس کے حق میں انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری بات محصنت کے لفظ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو مرد یا عورت پہلے ہی بدنام مشہور ہوچکے ہوں یا پہلے ہی سزا یافتہ ہوں ان پر الزام لگانے سے نہ حد پڑے گی اور نہ ہی وہ غیر مقبول الشہادت قرار پائیں گے تاہم انھیں ایسے کام سے پرہیز کرنا چاہئے۔ 8 یعنی خواہ ایسے لوگ اپنی بات یا دعویٰ میں حقیقتاً سچ ہوں مگر مکمل ثبوت فراہم نہ ہونے کے باعث جھوٹے قرار پاگئے ہوں تب بھی ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی اور لوگوں کے ہاں بھی۔ اور ان کی بدکرداری یہ ہے کہ اس فحاشی کی بات کو معاشرے میں پھیلانا شروع کردیا۔ جیسے وہ ثابت نہیں کرسکے۔ لہذا مسلمانوں کے لئے راہ نجات پردہ پوشی میں ہی ہے۔
Top