Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
فَمَا كَانَ : سو نہ تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا : سوائے اَنْ : یہ کہ قَالُوا : انہوں نے کہا اقْتُلُوْهُ : قتل کردو اس کو اَوْ حَرِّقُوْهُ : یا جلا دو اس کو فَاَنْجٰىهُ : سو بچا لیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِنَ النَّارِ : آگ سے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان رکھتے ہیں
تو ابراہیم 36 کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو پھر اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا۔ یقینا اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے کئی نشانیاں 37 ہیں۔
36 حضرت ابراہیم کے حالات کے درمیان آیت نمبر 19 سے لے کر آیت نمبر 23 تک اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ جس میں ربط مضمون کی نسبت سے توحید اور آخرت پر کچھ دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر حضرت ابراہیم کے حالات کی طرف غور کیا جارہا ہے۔ حضرت ابراہیم کے دلائل توحید کا جب قوم ابراہیم سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر ائے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم کے ان کے بتوں کو توڑنے پھوڑنے کا واقعہ حذف کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم نے یہ کام اس لئے کیا تھا کہ قوم پر عملی طور پر واضح کرسکیں کہ ان کے معبود بالکل ناکارہ چیزیں ہیں جو اپنی حفاظت اور اپنے آپ سے نقصان کو دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی مشاہداتی دلیل نے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ مشتعل اور سیخ پا بنادیا۔ آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ابراہیم کو مار ہی ڈالو اور اگر ایسا نہ کرو تو اسے آگ میں جلا ڈالو۔ آگ میں جلانے کے مشورہ میں بھی دو پہول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسے دکھ دینے والا آگ کا عذاب دے کر مارنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شاید یہ کہ آگ کا عذاب دیکھ کر اپنی باتوں سے باز رہنے کا عہد کرلے۔ بہرحال ان لوگوں نے لمبا چوڑا آگ کا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم کو اس آگ میں پھینک دیا۔ 37 لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چناچہ ابراہیم اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گلزار میں رہتا ہے۔ اور اس میں نشانیاں یہ ہیں : (1) ہر چیز کی کچھ طبیعی خواص ہیں اور یہ خواص اللہ تعالیٰ نے ہی ہر چیز میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ (2) ان خواص میں اللہ تعالیٰ جب چاہے تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اگر اللہ چاہے تو بعض اشیاء کے طبیعی خواص سلب بھی کرسکتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ (3) اللہ کے بندوں کو اللہ کی مدد پہنچتی ضرور ہے۔ مگر پہلے انھیں ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور ایسی خرق عادت مدد صرف اس وقت آتی ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ اس واقعہ پر منکرین معجزات کی تاویل اور اس کا جواب سورة انبیاء کے حاشیہ نمبر 58 کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔
Top