Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے 2 ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور یہ معلوم 3 کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون
2 حضرت خباب بن ارت کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ کے پاس آیا اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر سیدھے) بیٹھ گئے۔ آپ کا چہرہ (غصہ سے) سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا : تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان پر رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیئے جاتے مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ اور اللہ اپنے اس کام (غلبہ حق) کو ضرور پورا کرکے رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مالقی النبی و اصحابہ من المشرکین بمکۃ) 3 فلیعلمن سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ عقیدہ اخذ کیا کہ جوں جوں واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کو ان کا علم ہوتا جاتا ہے۔ اور اس عقیدہ کو وہ لوگ اپنی اصطلاح میں بدا کہتے ہیں۔ حالانکہ بیشمار آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اور اس میں ظہور پذیر ہونے والے تمام واقعات کا پہلے سے ہی علم ہے۔ اور اس کا یہ علم بھی اس کی ذات کی طرح ازلی ابدی ہے۔ اور اس آیت یا اس جیسی بعض دوسری آیات سے جو اللہ تعالیٰ کے حدوث علم کا وہم پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کی تقسیم صرف صرف ہم انسانوں کے لئے ہے اللہ تعالیٰ کے لئے زمانہ کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے خیال کے مطابق زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یا حال سے یا استقبال سے اس کے لئے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مستقبل کی خبروں کو بیشمار مقامات پر زمانہ ماضی کے صیغہ میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسے ( وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ 44؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :44) یا جیسے ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۝۽) 81 ۔ التکوير :1) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے جو انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔ اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں تو ان کا تعلق یفیناً حال اور استقبال سے ہوگا۔ لہذا ایسے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہی نہیں ہوتا تاکہ ہم جان لیں یا معلوم کرلیں بلکہ یہ بھی ہوتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے یا اور بھی کئی مقامات پر ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فی الواقع ہر شخص کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ فلاں شخص کیسے خصائل کا مالک ہے۔ لیکن محض اللہ اپنے علم کی بنا پر کسی کو جزا یا سزا نہیں دیتا جب تک فی الواقعہ وہ بات عملی صورت نہ اختیار کرلے۔ مثلاً یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت چوری کرے گا۔ لیکن اس علم پر سزا مترتب نہ ہوگی۔ جب تک فی الواقعہ وہ شخص چوری نہ کرلے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ انداز بیان اس وقت اختیار کرتے ہیں جب اس کا تعلق دوسرے لوگوں کے علم سے ہو۔ ایسی آیات میں علم کا ترجمہ مشاہدہ یا دیکھنے سے کیا جاسکتا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ اس کا معنی لِیُرِیَنَّ ہی کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) اور اگر علم کا ترجمہ جاننے سے ہی کیا جائے تو اس جاننے میں اللہ کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شریک ہوں گے۔ اور بعض علماء نے ایسے مقامات پر لفظ علم کا ترجمہ جاننے کے بجائے جتلانے سے کیا ہے۔
Top