Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 8
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا١ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَوَصَّيْنَا
: اور ہم نے حکم دیا
الْاِنْسَانَ
: انسان کو
بِوَالِدَيْهِ
: ماں باپ سے
حُسْنًا
: حسنِ سلوک کا
وَاِنْ
: اور اگر
جَاهَدٰكَ
: تجھ سے کوشش کریں
لِتُشْرِكَ بِيْ
: کہ تو شریک ٹھہرائے میرا
مَا لَيْسَ
: جس کا نہیں
لَكَ
: تجھے
بِهٖ عِلْمٌ
: اس کا کوئی علم
فَلَا تُطِعْهُمَا
: تو کہا نہ مان ان کا
اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ
: میری طرف تمہیں لوٹ کر آنا
فَاُنَبِّئُكُمْ
: تو میں ضرور بتلاؤں گا تمہیں
بِمَا
: وہ جو
كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے تھے
اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین
10
سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں
11
تو ان کا کہنا نہ مان
12
۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں
13
گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
10
اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے بعد متصلا " والدین کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر
23
کا حاشیہ
25
11
یعنی تمام کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی شریک ہوسکے۔ اور اللہ کی اپنی شہادت بھی یہی ہے کہ وہ اللہ جو کائنات کا ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ بھر تک علم رکھتا ہے۔ اس کے علم میں بھی کوئی چیز نہیں جو اس کی شریک ہو۔ تو پھر تجھے یا کسی دوسرے کو کیا علم ہوسکتا ہے اور اس آیت میں لَکَ کا لفظ محض تاکید مزید کے طور پر ہے اور جو لوگ بعض اشیاء یا ہستیوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو یہ محض ان کے جاہلانہ اوہام اور بےسند خیالات ہیں۔ حقیقت کی انھیں بھی کچھ خبر نہیں۔
12
یعنی والدین بھی تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ چناچہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے معصب بن سعد کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ سعد سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (اسلام) نہ چھوڑے گا، نہ ہی وہ کچھ کھائے گی اور نہ پئے گی۔ وہ سعد سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں۔ پھر تین دن اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی سعد سے بات کی۔ تین دن کے بعد اسے غش آگیا تو اس کے ایک دوسرے بیٹے عمارہ نے اسے پانی پلایا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ سعد کے حق میں بددعا کرنے لگی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اور دوسری احادیث و روایات سے جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلام لائے اس وقت آپ انیس بیس برس کے نوجوان تھے اور بالکل آغاز اسلام ایمان لائے تھے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر سات دن ایسے گزرے ہیں کہ میں کل مسلمانوں کا تیسرا حصہ تھا (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعد) یعنی رسول اللہ کے گھرانہ کے علاوہ اس وقت تک صرف تین آزاد مرد مسلمان تھے۔ جن میں سے ایک یہی حضرت بن ابی وقاص تھے اور وہ اپنے ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ جب ان کی ماں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ تو آپ نے اپنی ماں سے کہا : ماں ! اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں حضرت محمد ﷺ کے دین سے نہیں پھروں گا۔ تو کھا یا نہ کھایا تجھے اختیار ہے۔ شرک تو خیر سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر اللہ کی نافرمانی کی کوئی بھی بات ہو تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہوسکتی ہے۔ (متفق علیہ) خواہ حکم دینے والے والدین ہو یا بادشاہ ہو یا امیر ہو، کسی کی بھی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شرک یا اللہ کی نافرمانی کے علاوہ باقی ہر طرح کے معاملات میں والدین کی اطاعت فرض ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے بھی جو کافر تھی یہی کچھ سمجھا تھا۔ مگر دور حاضر کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں اطاعت والدین کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں : دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاق کے دبستانوں میں یہ چیز (اطاعت والدین) ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے ایسے مسلمہ کی حیثیت جو کسی بھی غور و فکر، تنقید کی محتاج ہی نہیں۔ ان کے ہاں کبھی کسی نے اتنا خیال کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جس میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کو دیکھئے۔ اس نے دنیا میں پہلی بار یہ آواز بلند کی ہے کہ جو لوگ عقل کے انحطاط کے دور میں پہنچ گئے ہوں ان کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے۔ ماں باپ حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ جب تک بچہ بچہ ہے وہ اس کے نگران اور کفیل ہیں۔ جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے تجربوں سے مشورہ سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اسے ان کے فیصلوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ (قرآنی فیصلے ص
138
) اس اقتباس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے :
1
۔ اخلاق کے تمام دبستان اور دنیا کے تمام مذاہب اطاعت والدین کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان مذاہب میں سب اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ جن کے انبیاء پر وحی الٰہی نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اطاعت سب انبیاء کی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔
2
۔ پھر ان مذاہب میں یا اہل کتاب میں مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں قرآن جیسی کتاب دی گئی۔ اس قرآن میں پہلی بار یہ صدا بلند کی گئی کہ اطاعت والدین ایک بےمعنی اور لغو چیز ہے۔ لیکن قرآن کی اس صدا پر مسلمانوں نے بھی کان تک نہ دھرا یا انھیں اس صدا کی سمجھ ہی نہ آسکی۔ اور وہ بھی اطاعت والدین دوسرے مذاہب کی طرح واجب ہی سمجھتے رہے تاآنکہ پرویز صاحب نے قرآن کی اس پہلی بار کی صدا کا صحیح مفہوم سمجھا اور وہ مفہوم یہ ہے کہ والدین کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے
3
۔ ماں باپ اپنی اولاد سے صرف حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ گویا پرویز صاحب کے خیال کے مطابق والدین کی اطاعت کے بغیر بھی ان سے حسن سلوک اور نرم برتاؤ ممکن ہے۔ پھر اس کے بعد پرویز صاحب اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک ماں باپ زندہ ہیں ان کا لڑکی خواہ ساٹھ ستر برس کا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے فیصلے اپنی صوابدید کے مطابق کرے۔ اسے ان کے فیصلوں کی تعمیل کرنے ہوگی جن کی عقل کے متعلق اس کے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اوندھی ہوجاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولاد ساری عمر عقلی طور پر اپاہج اور ذہنی طور پر بچے کے بچے رہ جاتے ہیں (ایضاص
129
) اب دیکھئے اس اقتباس میں پرویز صاحب نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ عقل اور نقل دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ جو اولاد خود ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس کے والدین سو سال کی لگ بھگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اس عمر میں وہ نان شبینہ حتی کہ نقل و حرکت تک کے لئے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ کیا فیصلے دے سکتے ہیں اور اولاد کو کیسے حکم دے سکتے ہیں۔ وہ تو اس عمر میں اپنی رائے بتلانے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو اولاد ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ تو خود ارذل العمر کی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے کیا حق ہے کہ اب وہ اپنے فیصلے آپ کرے۔ اب فیصلے کرنے کے لئے اس کی اولاد موجود ہے۔ جو کم از کم چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر عقل کی پختگی حاصل کرچکی ہے۔ لہذا ساٹھ ستر برس کی اولاد کے لئے اس واقعاتی دنیا میں اطاعت والدین کا سوال بھی کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور نقلی لحاظ سے یہ دلیل اس لئے غلط ہے کہ قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس عمر میں لوگوں کی عقل اوندھی ہوجاتی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں : ( وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۭ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ
68
)
36
۔ يس :
68
) اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں۔ یعنی بچے سے جوان، پھر جوان سے بوڑھا کردیتے ہیں۔ جوانی میں وہ طاقتور تھا، بڑھاپے میں کمزور ہوجاتا ہے اس کا جسم بھرا ہوا اور سڈول تھا، بڑھاپے میں وہ نحیف و نزار وہجاتا ہے اور اس کے بند ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اس آیت میں اس کی خلقت کے اوندھا ہونے کا ذکر ہے۔ عقل کا نہیں، اس مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت یہ ہے : (وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا )
22
۔ الحج :
5
) اور تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور جاننے کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں ۔ یعنی ان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا سابقہ حاصل کیا ہوا علم بھی بھول جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی عقل کے اوندھا ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ جب بچہ بچہ ہے، والدین اس کے نگران اور کفیل ہیں، جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ بچپن میں تو بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے ان کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا، ورنہ اس کی تعلیم و تربیت رک جاتی ہے۔ پھر وہ نابالغ ہونے کی بنا پر شرعی احکام کا مکلف بھی نہیں ہوتا۔ اطاعت والدین کا تو سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہوجائے اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جوانی کا جوش، جذبات کی فراوانی اور عقل کی ناپختگی ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں اسے والدین کی اطاعت کرنا ضروری ہوتی تاآنکہ وہ عقل کی پختگی کی عمر یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اولاد نے والدین کی خدمات کا کیا صلہ دیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کو بھی اپنے اس گھپلے کا احساس ہوگیا۔ چناچہ بعد میں لکھتے ہیں کہ : اس میں شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ معاشرت (جس میں خاندانوں میں مشترکہ زندگی بسر ہوتی ہے) کی عائلی زندگی کا تقاضا ہے کہ افراد خاندان کے متفقہ فیصلوں کے ماتحت زندگی بسر کریں اور خود سر اور سرکش نہ ہوجائیں لیکن خودسری اور سرکشی اور شے ہے اور اصابت رائے اور شے پھر اس عبارت پر حاشیہ دے کر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھئے خود فیصلے کرنے کے لئے عقل کی پختگی اور رائے کی اصابت لاینفک شرط ہے۔ اس لئے بچہ جب تک اس منزل تک نہ پہنچ جائے اسے لامحالٰہ بڑوں کے فیصلہ کے مطابق چلنا ہوگا۔ (ایضا ص
129
) اس اقتباس میں جواب طلب امور یہ ہیں :
1
۔ کیا بڑوں میں والدین بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ یا صرف اطاعت والدین کی مخالفت میں ان بڑوں میں والدین کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا گیا ؟
2
۔ قرآن نے جو پہلی بار صدا بلند کی تھی کہ بڑوں کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوتے اس صدا کے خلاف اب آپ خود ہی کیوں نوجوانوں کو ایسے مشورے دینے لگے ؟
3
۔ اگر چھوٹے بڑوں کے فیصلوں کے پابند ہوں گے تو اس طرح وہ عقلی لحاظ سے اپاہج بن جائیں گے اس بات کا آپ کے پاس کیا علاج ہے ؟ اب ہم قرآن ہی سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت فرض ہے :
1
۔ سورة عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ )
29
۔ العنکبوت :
8
) اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، پھر اگر وہ اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اطاعت والدین حسن سلوک میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ باقی سب معاملات میں ان کی اطاعت لازم ہے۔
2
۔ اور سورة لقمان میں بالکل ایسے ہی الفاظ آئے ہیں البتہ یہ وضاحت زیادہ ہے : ( وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
15
)
31
۔ لقمان :
15
) اور دنیوی معاملات میں والدین کا اچھی طرح ساتھ دے خواہ وہ مشرک ہوں ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
59
)
4
۔ النسآء :
59
) اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے اولی الامر ہیں یہاں اولی الامر جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف حکام سلطنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی شامل ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مثلاً والدین، استاد، محلہ کے چوہدری، خاندان کے سربراہ وغیرہ وغیرہ یعنی اور وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو ان سب کی اطاعت لازم ہے۔ آخر ان اولی الامر کے زمرہ سے والدین کو کس لحاظ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔
4
۔ حضرت یحییٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ( وَّځ ابِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا
1
4
۔ )
19
۔ مریم :
14
) یحییٰ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور نافرمان نہیں تھے اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں، سرکش اور نافرمان ہو وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا حسن سلوک میں دو باتیں ضرور ہیں، (
1
) سختی کے بجائے نرمی کا سلوک اور (
2
) ان کی فرمانبرداری۔ الفاظ یدگر والدین کی اطاعت کے بغیر ان سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
5
۔ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تھی۔ حضرت اسماعیل جب عاقل ہوگئے تو ان سے حضرت ابراہیم نے کہا کہ : ( فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ
102
۔ )
37
۔ الصافات :
102
) میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں، تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت اسماعیل نے کہا : ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کچھ کیجئے اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت اسماعیل اس وقت عاقل و بالغ اور رائے دینے کے لئے قابل ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ اللہ کا حکم خواب میں حضرت ابراہیم کو ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل کو نہیں ہوا تھا۔ باینہمہ حضرت اسماعیل نے اپنے بوڑھے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد کی اطاعت میں جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ تو خواب کی بات ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ اب باپ بوڑھا ہوگیا ہے جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے یا یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا۔ یا یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے، مجھے تو نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے باپ کی منشاء کے آگے (حکم کے آگے نہیں) سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے (فَلَمَّا أسْلَمَا) کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حضرت اسماعیل کی اپنے باپ کے منشاء کے اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت تھی، کیا اس سے بڑھ کر بھی بوڑھے والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی درکار ہے ؟ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی مندرجہ بالا تصریحات سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں :
1
۔ بلوغت سے پہلے بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اس بچہ کی اطاعت اس لحاظ سے بھی خارج از بحث ہے کہ اس عمر میں بچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔
2
۔ بلوغت سے لے کر چالیس سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل اور اصابت رائے کی عمر تک) کے عرصہ میں اولاد کو والدین کی اور بزرگوں کی اطاعت کرنا لازم ہے کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات کی شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اپنا نفع و نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی اطاعت کرے۔
3
۔ اندازا چالیس سال کی عمر کے بعد جب اس کی عقل پختہ ہوجاتی ہے اس وقت تک اس کے والدین کہولت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ خود اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سرتھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اگر اولاد اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہوجائے تو پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث وجدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کو اف تک نہ کہے۔ انھیں دبانا یا ڈانٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی بات نرمی سے پیش کرکے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں دل و جان سے ان کی خدمت کرے۔
4
۔ اگر والدین اللہ سے شرک یا دوسرے کسی معصیت کے کام پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں ان کی نافرمانی کی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔
13
یعنی والدین ہو یا اولاد، فرمانروا ہو یا رعایا کا کوئی فرد سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہ ہر ایک معاملہ میں تمہیں بتلا دے گا کہ زیادتی کس کی تھی اور حق پر کون تھا۔
Top