Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا
: اور تم عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَلَا تُشْرِكُوْا
: اور نہ شریک کرو
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کسی کو
وَّ
: اور
بِالْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ سے
اِحْسَانًا
: اچھا سلوک
وَّ
: اور
بِذِي الْقُرْبٰى
: قرابت داروں سے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور محتاج (جمع)
وَالْجَارِ
: ہمسایہ
ذِي الْقُرْبٰى
: قرابت والے
وَالْجَارِ
: اور ہمسایہ
الْجُنُبِ
: اجنبی
وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ
: اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس)
وَ
: اور
ابْنِ السَّبِيْلِ
: مسافر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہاری ملک (کنیز۔ غلام
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مُخْتَالًا
: اترانے والا
فَخُوْرَۨا
: بڑ مارنے والا
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک
63
نہ بناؤ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو
64
نیز قریبی رشتہ داروں، یتیموں
65
مسکینوں، رشتہ دار ہمسائے، اجنبی ہمسائے
66
اپنے ہم نشین اور مسافر
67
ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان لونڈی
68
غلاموں سے بھی جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا مغرور اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا
63
شرک کے لیے دیکھیے اسی سورة کا حاشیہ نمبر
80
، اور حاشیہ نمبر
154
)
64
والدین سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر
25
تا
28
۔ اوراقرباء سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة نساء کا حاشیہ نمبر
3
۔
65
یتیموں سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة نساء کی آیات
2
تا
6
کے حواشی۔
66
ہمسایہ سے بہتر سلوک :۔ ہمسایوں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
1
۔ آپ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علیٰ اکرام الجار)
2
۔ ایک دفعہ آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں صحابہ نے پوچھا کون یا رسول اللہ ﷺ ! فرمایا جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ)
3
۔ آپ نے فرمایا جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان تحریم ایذاء الجار)
4
۔ آپ نے فرمایا وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے (مسلم۔ کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار)
5
۔ آپ نے فرمایا جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بھی بنادیں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الوصایہ بالجار۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ باب الوصیۃ بالجار)
6
۔ آپ نے سیدنا ابوذر ؓ سے فرمایا ابو ذر جب تم سالن پکاؤ تو اس کا شوربا زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔ (مسلم۔ ایضاً )
7
۔ آپ نے فرمایا ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے (فروختنی جائیداد کا) زیادہ حقدار ہے ، (بخاری کتاب السلم باب عرض الشفعۃ علی صاحبہا قبل البیع)
8
۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا اللہ کے رسول ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو تحفہ بھیجوں ؟ فرمایا جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، کتاب المسلم باب ای الجواراقرب)
9
۔ آپ نے فرمایا اے مسلم عورتو ! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ تحفہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الہبتہ، و التحریض علیہا۔۔ مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ)
10
۔ آپ نے فرمایا کوئی ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی (شہتیر وغیرہ) رکھنے سے منع نہ کرے۔ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ)
11
۔ آپ نے فرمایا جب آپ اپنے ہمسایوں کو یہ کہتے سنیں کہ آپ نے اچھا کام کیا تو فی الواقع آپ نے اچھا کام کیا اور جب آپ سنیں کہ آپ نے برا کام کیا تو فی الواقع آپ نے برا کام کیا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد فی الدنیا، باب الثناء الحسن)
12
۔ آپ نے فرمایا وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتا ہے اس حال میں کہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ (شعب الایمان للبیہقی) اس آیت میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں۔ دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں۔ تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے۔ تاہم اسی ترتیب سے الاقرب فالاقرب کا خیال ضرور رکھا جائے۔ سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے۔ اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا کو لیگ ہوں۔ اور مندرجہ بالا احادیث سے نہایت اہم چیز جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی اور مل جل کر رہنے کا زبردست مؤید ہے۔ آج کے دور میں کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش ہے جہاں ساتھ والے ہمسائے تک کو اس کی غمی یا خوشی کی خبر تک نہیں ہوتی، یہ اسلامی نظریہ معاشرت کے عین برعکس ہے۔ پھر اسلام جن اعلیٰ اقدار کا سبق دیتا ہے تہذیب و تمدن کی تبدیلی نے ان اقدار کو بھی یکسر بدل دیا ہے مثلاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کوئی ہمسایہ اپنے ہمسائے کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھ لینے سے منع نہ کرے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر ہمسائے بھائی بھائی بھی ہوں تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اپنی دیوار اپنے بھائی کی دیوار سے بالکل الگ تعمیر کرے۔ گو یہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ بعد میں کسی وقت تنازعہ پیدا نہ ہو مگر شریعت نے تنازعہ پیدا کرنے کا نہیں بلکہ تنازعہ کو ختم کرنے اور بھائی بھائی نہ ہونے کے باوجود بھائی بھائی بن کر رہنے کا سبق دیا تھا۔ پھر ان احادیث میں جو حقوق بیان کیے گئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں جن کی شرح و تفصیل کی ضرورت نہیں اور پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمسائے بھی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں اور یہ بھی غور فرمائیے کہ اگر ان ارشادات نبوی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
67
مسافروں سے بہتر سلوک :۔ مسافروں سے بہتر سلوک کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
1
۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ اثنائے سفر میں آپ نے ہمیں فرمایا جس کے پاس فاضل سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں۔ غرضیکہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلم، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواسات بفضول المال )
2
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک شخص کو جو سفر پر روانہ ہو رہا تھا، کہا کہ میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں ایسے ہی رخصت کروں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ (میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری اعمال اللہ کے سپرد کرتا ہوں) (ترمذی، ابو اب الدعوات، باب مایقول اذا ودع انسانا)
3
۔ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں اور نہ انہیں پاک کرے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ جس کے پاس راستہ میں فاضل پانی ہو اور وہ مسافر کو بھی پانی نہ دے۔ (بخاری، کتاب المساقات۔ باب اثم من منع ابن السبیل من المائ)
4
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ ہمیں روانہ کرتے ہیں پھر ہم (راستے میں) ایسے لوگوں کے پاس اترتے ہیں جو ہماری مہمانی تک نہیں کرتے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ لوگ دستور کے مطابق تمہاری مہمانی کریں تو فبہا اور اگر نہ کریں تو دستور کے مطابق مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔ (بخاری۔ کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ۔۔ الخ) مندرجہ بالا احادیث سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں :
1
۔ ہم سفر لوگوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ اگر ایک مسافر کے پاس کھانے پینے کی یا ضرورت کی کوئی بھی چیز اپنی ضرورت سے زائد ہے تو اسے اپنے ایسے مسافر بھائی کو وہ چیز دینا ضروری ہے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو اور پانی کا بالخصوص اس لیے ذکر آیا کہ یہ زندگی کی نہایت اہم بنیادی ضرورت ہے۔ لہذا اپنی ضرورت سے زائد پانی نہ دینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس فعل کے متعلق قرآن یا حدیث میں یہ مذکور ہو کہ اللہ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، یا پاک نہیں کرے گا تو ایسا فعل گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔
2
۔ دور نبوی میں عرب بھر میں پانی کی بھی قلت تھی اور بستیوں اور شہروں کی بھی۔ لہذا اس دور میں بستی والوں کا مسافروں کی مہمانی سے انکار دراصل انہیں مار دینے کے مترادف ہوتا تھا لہذا بصورت انکار ان سے حق وصول کرلینے کی اجازت دی گئی لیکن آج کل اور بالخصوص پاکستان میں ایسی صورت نہیں ہے پانی عام ہے۔ بستیاں قریب قریب ہیں اور کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل بکثرت موجود ہیں۔ لہذا ان حالات میں کسی ناجائز طریقہ سے مہمانی وصول کرنے کا حق نہیں اور اب یہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب مسافر کے پاس زاد راہ ختم ہوجائے اور کوئی شخص اس کو کھانا کھلانے یا مہمانی کرنے پر تیار نہ ہو ایسے مسافر کو صدقہ حتیٰ کہ زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے خواہ وہ اپنی گھر میں کتنا ہی امیر ہو۔
68
لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک :۔ لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
1
۔ سیدنا ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ میرے اور فلاں (سیدنا بلال ؓ ۔۔ آزاد شدہ حبشی غلام) کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو میں نے اسے ماں کی عار دلائی (یہ کہا تھا اے کالی ماں کے بیٹے ! ) تو انہوں نے ( بلال ؓ نے یہ بات آپ کو بتادی۔ آپ نے مجھے فرمایا ابو ذرص ! تم ایسے انسان ہو جس میں جاہلیت (ابھی باقی) ہے۔ میں نے کہا اتنی بڑی عمر ہوجانے کے باوجود بھی باقی ہے ؟ فرمایا ہاں ! یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ تو جس شخص کا بھائی اللہ اس کے تحت کر دے تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ ایسا کام کرنے کو نہ کہے جو اس پر بھاری ہو۔ اور اگر ایسا کام کرنے کو کہے تو خود اس کی مدد بھی کرے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب ماینھی من السباب واللعن۔ نیز کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امر الجاھلیۃ)
2
۔ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام پر تہمت لگائے درآنحالیکہ وہ اس چیز سے بری ہو جو اس نے تہمت لگائی ہے تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین، باب قذف العبید)
3
۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو بھی اسے لقمہ دو لقمے دے دے۔ کیونکہ اس نے پکانے کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔ (بخاری، کتاب العتق، باب اذا اتاہ خادمۃ بطعامہ)
4
۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو اچھی طرح تعلیم دے اور اچھی طرح ادب سکھائے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری۔ نیز کتاب العلم۔ باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ)
5
۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص (اپنے لونڈی غلام کو) عبد (بندہ) اور امتہ (بندی) نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور سب عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں بلکہ یوں کہو۔ میرا خادم اور میری خادمہ اور میرا بچہ اور میری بچی۔ (مسلم۔ کتاب الالفاظ من الادب، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد والامۃ و المولی والسید)
6
۔ غلاموں کا وقار بلند کرنے کے اقدامات :۔ سیدنا ابو مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی ابو مسعود ! جان لو۔ میں غصہ کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا۔ جب کہنے والا قریب آیا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے اور یوں کہہ رہے تھے ابو مسعود ! جان لو ! ابو مسعود ! جان لو ! آپ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرگیا ۔ پھر آپ نے فرمایا ابو مسعود ! خوب سمجھ لو کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے اس سے زیادہ قدرت اللہ کو تم پر ہے۔ چناچہ میں نے کہا کہ آج کے بعد کبھی غلام کو نہ ماروں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ! یہ غلام اللہ کی خاطر آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے جھلس دیتی۔ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب صحبۃ الممالیک)
7
۔ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام کو بغیر کسی قصور کے حد لگائے یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً )
8
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم کے پاس آیا اور کہا میں اپنے غلام کو کتنی بار معاف کروں ؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے اپنی بات دہرائی تو بھی آپ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار جب یہی بات پوچھی تو آپ نے فرمایا خادم کو ہر دن میں ستر دفعہ معاف کرو (ابو داؤد، کتاب الادب باب فی حق المملوک )
9
۔ سیدنا ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے خیمہ کے دروازہ کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی۔ آپ نے پوچھا غالباً وہ شخص (جس کے حصہ میں یہ آئی ہے) اس سے جماع کرنا چاہتا تھا ؟ صحابہ نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو قبر میں اس کے ساتھ داخل ہو بھلا وہ اس بچہ کا کیسے وارث ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں اور وہ اس بچہ کو کیسے غلام بنا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں۔ (مسلم، کتاب النکاح۔ باب تحریم وطی الحامل المسبیۃ)
10
۔ آپ نے فرمایا جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے، قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف استغاثہ کروں گا۔ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الاجارۃ۔ فصل اول) جنگ بدر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جنگی قیدیوں کو مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ استَوْصُوْابِالْاُسَارٰی خَیْرًا۔ یعنی ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ انہی قیدیوں میں سے ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جس انصاری کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ خود تو کھجوریں کھاتے تھے۔ لیکن مجھے صبح و شام روٹی کھلاتے تھے۔
11
۔ اسلام میں داخل ہونے کے لئے شہادتیں :۔ معاویہ بن حکم اسلمی سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک بکری لیے جا رہا ہے۔ میں بھی آخر آدمی ہوں مجھ کو بھی ایسے غصہ آتا ہے جیسے دوسروں کو آتا ہے۔ میں نے اس لونڈی کو ایک طمانچہ مارا۔ پھر میں رسول کے پاس آیا تو آپ نے میرے اس فعل کو بہت بڑا جرم سمجھا۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا۔ اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپ کے پاس لے کر گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا۔ آسمان پر۔ پھر آپ نے پوچھا میں کون ہوں ؟ وہ کہنے لگی۔ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسے آزاد کردے۔ یہ مومنہ ہے۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ۔۔ ) اسلام سے پہلے غلاموں کی جس قدر بدتر حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ اسلام نے غلاموں کو اتنے حقوق عطا کیے کہ وہ معاشرہ کا معزز فرد بن گئے۔ اسلام نے ان سے حسن سلوک کی جو تاکید کی تھی یہ اسی کا اثر تھا کہ نام کے علاوہ غلام اور آزاد میں کچھ فرق نہ رہ گیا۔ غلاموں کا فقیہ اور محدث ہونا تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پھر آپ نے زید ؓ بن حارثہ کو اپنا متبنیٰ بنایا۔ پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ زید ؓ بن حارثہ اور ان کے بیٹے اسامہ ؓ بن زید ؓ دونوں کو کئی بار سپہ سالارلشکر بنایا۔ جن کے تحت صحابہ کبار جنگ میں شریک ہوئے۔ سیدنا بلال ؓ کو جو کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے حبشی غلام تھے سیدنا عمر ؓ سیدنا بلال ؓ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ سیدنا عمر ؓ نے اپنی وفات کے وقت ابو حذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم ؓ کے متعلق فرمایا کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر تم پر نکٹا غلام بھی امیر بنادیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ کے احکام کے مطابق چلاتا رہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔ ) چناچہ تاریخ میں ایسے بیشمار مسلمان بادشاہ گزرے ہیں جو غلام تھے۔ محمود غزنوی مشہور فاتح ہند بھی آزاد کردہ غلام تھا۔ ہندوستان اور مصر میں غلاموں کے خاندان نے صدیوں تک حکومت کی۔ مغلوں کی ہند میں آمد سے بہت پہلے خاندان غلاماں کے کئی فرمانرواؤں نے ہند پر حکومت کی۔ اب وہ کونسا اعزاز باقی رہ جاتا ہے جو آزاد کے ساتھ مخصوص ہو اور غلام اس سے محروم ہو۔ اور بعض لوگوں نے (اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ )
4
۔ النسآء :
3
) میں ان جانوروں اور مویشیوں کو بھی شامل کیا ہے جو انسان اپنی ضرورت کے تحت اپنے گھر میں پالتا ہے مثلاً سواری کے لیے گھوڑا یا اونٹ۔ دودھ حاصل کرنے کے لیے بھیڑ بکری یا گائے بھینس اور انڈوں اور گوشت وغیرہ کے لیے مرغیاں پالنا وغیرہ۔ کہ یہ جانور بھی اپنے مالک کے حسن سلوک کے مستحق ہیں اور یہ توجیہ اس لحاظ سے بہت خوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں پر رحم کرنے اور ان سے بہتر سلوک کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔
69
یعنی وہ لوگ جو اپنی انا میں مست و مغرور رہتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔
Top