Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 1
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
(پڑھو) اللہ کے نام سے جو بہت مہربان بہت ہی پیار کرنے والا ہے
سورة (1) فاتحہ (2) مکی (3) ہے اس میں سات (4) آیات اور ایک رکوع (5) ہے۔ فاتحہ قرآن کریم کی پہلی سورة ۔ سورة کو سورة کہنے کی وجہ : 1 : قرآن کریم کی سورتوں کو جو سورت کہتے ہیں اس کی وجہ تسمیہ میں متعدد اقوال ہیں۔ سب سے صاف یہ ہے کہ سورت شہر کی فصیل کو کہتے ہیں جس سے شہر محدود ہوجاتا ہے۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید کی آیات معینہ محدودہ پر سورت کا اطلاق کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی آٹھ جگہ سورت کا لفظ آیا ہے اس سے بھی قرآن کریم کا ایسا حصہ ہی مراد ہے جس میں پورا مطلب اور منشاء بیان کیا گیا ہے بلکہ اسی نسبت سے قرآن کریم میں اس پر سورت کا اطلاق ہوا ہے۔ پس اس کی پیروی میں ان مجموعہ آیات پر جو درحقیقت معین و محدود اور اپنے ماقبل و ما بعد سے علیحدہ ہیں۔ سورت کا اطلاق کرنا نہایت درست و صحیح ہے۔ قرآن کریم میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں جن کی ترتیب خود رسول ﷺ فرماگئے تھے اور اکثر نام بھی رسول اللہ ﷺ کے رکھے ہوئے ہیں اور کچھ سورتوں کے نام ایک سے زیادہ بھی روایات میں موجود ہیں جیسے زیرنظر سورة مبارکہ کے نام 36 تک علمائے اسلام نے تحریر کئے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سورة کے لفظی معنی بلندی یا بلند منزل کے ہیں۔ جیسے السورۃ الرافعۃ (لسان) السورۃ المنزلۃ الرفیعہ (راغب) اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح دنیا کی دوسری کتابیں مختلف بابوں میں تقسیم ہوتی ہیں اسی طرح قرآن مجید کے ہر باب کو سورة کہتے ہیں۔ گویا ہر سورة ایک بلند منزل کا نام ہے۔ ان میں سے جس نسبت سے بھی سورة کو سورة کہا جائے صحیح اور درست ہے۔ سورۃ فاتحہ کے دوسرے نام احادیث میں : 2 : سورة فاتحہ کے بہت سے نام کتب احادیث و تفاسیر میں بتائے گئے ہیں اور علماء نے چھتیس تک شمار کئے ہیں ان میں صرف دس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ زیادہ دیکھنے کا شوق ہو تو علامہ سیوطی (رح) کی ” الاتقان “ کا مطالعہ کریں۔ 1 : ” فاتحۃ ال کتاب “ یہ نام اس لئے تجویز ہوا کہ قرآن مجید کا اس سے افتتاح ہوتا ہے اور نماز کی قراءت بھی اسی سے شروع ہوتی ہے یا نماز میں اس کی قراءت ضروری ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آسمان سے سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت یہی ہے۔ اسی لئے اس کا نام ” فاتحۃ ال کتاب “ ہے۔ 2 : ” الحمد “ یہ اس لئے کہ اس سورت کے اندر الحمد کا لفظ موجود ہے یعنی دوسری آیت کے شروع میں الحمد کا لفظ ہے اور دوسری سورتوں کے اسماء بھی سورتوں کے اندر موجود ہیں اور ہر سورة کا نام اس سورة کی کسی نہ کسی آیت کے اندر ہی سے لیا گیا ہے لہٰذا اس سورت کا نام بھی سورت کے اندر کی آیات ہی سے لیا گیا۔ 3 : ” ام القرآن “ اس کی بہت سی وجود بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہرچیز کی ماں اس کی اصل ہے اور تمام قرآن مجید کی تقریر کی اصل سورة فاتحہ ہے لہٰذا اسی نسبت سے اس کو ” ام القرآن “ فرمایا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کے مضامین کا خلاصہ الٰہیات ، معاد ، قضا و قدر اور استدعا ہے اور ان چاروں کا خلاصہ سورة فاتحہ کے اندر موجود ہے۔ پہلی تین آیتیں الرحمٰن الرحیم تک الٰہیات کا بیان ہے۔ چوتھی آیت معاد پر دلالت کرتی ہے۔ پانچویں آیت : ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 “ سے جبر و قدر کی نفی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر قضا و قدر کے اثبات پر دلیل ہے۔ اور چھٹی اور ساتویں آیت یعنی : ” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ سے وَ لَا الضَّآلِّیْنَ (رح) 007 “ تک استدعا پر واضح دلیل ہے۔ 4 : ” سبع مثانی یہ نام قرآن مجید کی سورة الحجر کی آیت نمبر 87 سے لیا گیا ہے چناچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے : وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (15 : 87) ” اور ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیات عطا کیں “۔ صحیح حدیث میں ہے کہ : ” سات دہرائی جانے والی آیات “ سے مراد سورة فاتحہ ہے کہا گیا ہے کہ اس کو مثانی اس لیے کہتے ہیں کہ : الف : نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے۔ نماز فرض ہو ، نفل یا سنت ، نماز عید ہو یا جنازہ ، نماز تسبیح ہو یا استغفار۔ ب : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : فاتحہ وہ سورت ہے جو سابقہ تمام کتابوں سے مستثنیٰ ہے خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس سورت کی مثل نہ تورات و انجیل میں ہے اور نہ زبور و قرآن میں اور یہ سورت فاتحہ ہے جس کا مثل قرآن مجید میں بھی موجود نہ ہے۔ ج : اس کی سات آیات ہیں جو بار بار دہرائی بھی جاتی ہیں اور جو شخص اس سورة مبارکہ کی تلاوت کرتا ہے وہ پورے قرآن مجید کا ثواب حاصل کرلیتا ہے ۔ د : اس کا نزول دو بار ہوا ، پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار مدینہ طیبہ میں ۔ ہ : اس کو نمازوں میں دو بار بھی پڑھا جاتا ہے ایک بار فرض سمجھتے ہوئے اور دوسری بار قرآن مجید کی ایک سورت ہونے کے واسطہ سے ۔ ( امام رازی ، تفسیر کبیر) و : اس میں اللہ تعالیٰ کی ثناء و مدح بیان کی گئی ہے۔ 5 : ” الوافیہ “ سورة فاتحہ کو اس نام سے اس لئے موسوم کیا جاتا ہے کہ نماز کے اندر اس کی تنصیف نہیں کی جاسکتی یعنی باقی سورتوں کی طرح نماز میں اس کا آدھا حصہ کم یا زیادہ پڑھ لینے سے نماز صحیح نہیں ہوتی حالانکہ باقی سورتوں میں سے کسی کا آدھا یا کچھ حصہ بھی تلاوت کرلیا جائے تو نماز درست ہوجاتی ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کی مقدار تین آیات یا ایک بڑی آیت بتایا گیا ہے۔ نیز یہ کہ اس سورت کو دو رکعت میں تقسیم بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 6 : ” الکافیہ “ نماز کی ایک رکعت میں اگر صرف سورة فاتحہ پڑھ لی جائے اور علاوہ ازیں قرآن مجید کا کوئی حصہ تلاوت نہ کیا جائے تو نماز درست ہوجاتی ہے اگرچہ ایک سنت اس میں سے رہ گئی ۔ لیکن سورة فاتحہ چھوڑ کر باقی قرآن کا کوئی حصہ تلاوت کرلیا تو نماز صحیح نہ ہوئی۔ چناچہ : محمود بن ربیع حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ام القرآن اپنے علاوہ سورتوں کا بدل ہے مگر اس کے علاوہ کوئی سورة اس کا بدل نہیں۔ “ 7 : ” الشفاء “ یعنی بیماریوں کے لئے شفا۔ یقینی بات ہے کہ کچھ روحانی بیماریاں ہوتی ہیں اور کچھ جسمانی۔ جسمانی بیماریوں سے روحانی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور کبھی روحانی بیماریوں سے جسمانی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں اور فاتحہ ان دونوں اقسام کے لئے یقیناً شفا ہے۔ اس لئے فاتحہ کا ایک نام ” دعا “ بھی ہے۔ اس کے ساتھ قرآن مجید کی آیت ” فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ 1ۙ“ پر ایک نظر مزید آپ کی تسلی کر دے گی۔ 8 : ” الصلوٰۃ “ سورة فاتحہ کا ایک نام ” الصلوٰۃ “ بھی ہے۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ : لا صلٰوۃ الا بفاتحۃ ال کتاب (صحیحین) سورة فاتحہ کے سوا کوئی نماز نہیں ہو سکتی پس اس لئے نبی کریم ﷺ نے اس کو ” سورة الصلوٰۃ “ کے نام سے پکارا ہے۔ یعنی وہ سورت جس کے سوا نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ جس قدر قرآن میں سے پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہوگا لیکن قیام نماز میں اس سے کم کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” الصلوٰۃ “ میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم ہے اور اس سے مراد بھی سورة فاتحہ ہے۔ 9 : ” السوال “ بھی اس سورت کا نام ہے وہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے سے مستغنی ہے ؟ ہر ایک کو حاجت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے اور وہ اپنی ضرورت طلب کرے۔ اپنی دینی اور دنیوی ضرورت کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یعنی حدیث قدسی ہے : ” جو شخص میرے سوال سے میرے ذکر میں مشغول ہو میں اسے اس سے افضل عطا کرتا ہو جو دوسرے سوالیوں کو دیتا ہوں۔ “ مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کی تلاوت کر کے اپنے آپ کو اس کے مطابق بنا کر بندہ جب سوال کرتا ہے تو میں اس کے سوال کو پورا کرتا ہوں۔ اسی نسبت سے اس سورة مبارکہ کا نام ” السوال “ رکھا گیا۔ 10 : ” الدعا “ اس سورة مبارکہ میں دعا مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب طلب ہو تو کس سے مانگے اور کیسے مانگے ؟ جب دینی طلب ہو تو دنیا اس کے اندر آجاتی ہے۔ اسی نسبت سے اس سورت کا نام ” دعا “ بھی احادیث صحیح سے ملتا ہے اور اس سورت کا باہمی تعلق دعا اور جواب دعا کا ہے۔ اس دعا کی ابتداء اس ہستی کی تعریف سے کی جا رہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو یہ کوئی تہذیب نہیں کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کردیا ، تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو پہلے اس کی خوبی کا اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔ قرآن کریم کی سورتوں کی تقسیم نہایت اہم تقسیم ہے : 3 : قرآن کریم کی سورتوں کی ایک اہم تقسیم بہ لحاظ زمانہ نزول کی گئی ہے جو سورتیں نزول ہجرت نبوی یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ قیام مکہ میں نازل ہوئیں خواہ ان کا نزول حدود شہر مکہ سے باہر ہی ہوا ہو ، مکی کہلاتی ہیں اور جو سورتیں بعد ہجرت نبوی ﷺ یعنی زمانہ قیام مدینہ میں نازل ہوئیں وہ مدنی کہلاتی ہیں خواہ ان کا نزول حدود شہر مدینہ سے باہر ہی ہوا ہو۔ لیکن یہ تقسیم صرف عمومی حیثیت سے ہے ورنہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدنی سورت کے اندر مکی آیتیں رکھ دیں ہیں ، اور اسکے برعکس بھی حکم فرمایا ہے۔ ربط مضمون و مناسبت مقام کا صحیح و لطیف تر احساس رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کسی کو ہو سکتا تھا ؟ اس لئے کسی متعین آیت کے باب میں اس کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ جزم کے ساتھ کرنا دشوار ہے اس باب میں جو روایتیں آئی ہیں ان میں اکثر و بیشتر درجہ تواتر کو نہیں پہنچتیں محض مفید ظن ہیں ، مفید یقین نہیں اور اس قسم کے قیاسی معیار کو مثلاً ” یا ایھا الناس “ سے شروع ہونے والی آیتیں لازمی طور پر مکی اور ” یا ایھا الذین امنوا “ سے شروع ہونے والی آیتیں لازمی طور پر مدنی ہوں گی روایات کی رو سے محض اکثری و تخمینی ہیں البتہ مضمون بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 001 اللہ (6) کے نام (7) سے جو بہت ہی مہربان (8) ، بہت ہی پیار کرنے والا ہے (9) (پڑھو ، (10) پڑھاؤ ) ۔ 1 کے پیش نظر ان کو کلی اور قطعی کہا جاسکتا ہے۔ وہ حروف جو سورة فاتحہ میں استعمال نہیں ہوئے : 4 : اور ان آیات میں سے پہلی آیت بسم الرحمٰن الرحیم ہے۔ اس سورة مبارکہ میں کل انتیس الفاظ اور ایک سو اکتالیس حروف ہیں جن میں سے : الف = 24 ، ب = 4 ، ت = 3 ، ث = x ، ج = x ، ح = 5 ، خ = x د = 4 ، ذ = 1 ، ر ۔ 8 ، ز = x ، س = 3 ش = x ص = 2 ض = 2 ، ط = 2 ، ظ = x ع = 6 ، غ = 2 ،= x ق = 1 ک = 3 ، ل = 22 ، م = 15 ، ن = 11 ، و = 4 ، ہ = 5 ، ی = 14 قرآن مجید کی کُل آیات بھی شمار کرلی گئی ہیں اور ان کی میزان الاتقان سیوطی (رح) کے مطابق 6666 ہے اور قرآن مجید کے کُل الفاظ 77934 اور کل حروف کی تعداد 323760 ہے۔ قرآن مجید کے شیدائیوں نے اس جیسی بہت سی عرق ریزیاں کی ہیں جو آج بھی ان کے عشق کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ ہاں ! یہ باتیں تخمیناً ہیں ، جو مطلق صحیح نہیں۔ اور سورة فاتحہ میں درج ذیل سات حروف استعمال نہیں ہوئے اور اتفاق یہ ہے کہ ساتوں حروف معجمہ ہیں وہ حروف یہ ہیں ثاء ، جیم ، خاء ، زاء ، شین ، ظاء ، اور فاء ، (ث ، ج ، خ ، ز ، ش ، ظ ، اور ف) مفسرین نے اس کی بڑی عجیب عجیب وجوہ بیان کی ہیں اور خصوصاً امام رازی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ ساتوں حروف مقامات عذاب ہیں اور پھر ان سے نکلے ہوئے وہ الفاظ درج کیے ہیں جو عذاب پر دلالت کرتے ہیں مثلاً ثاء سے ثبور (45 : 14) جیم سے جہنم (15 : 43) ، (7 : 178) خاء سے خزی (16 : 27) زاء سے زفیر (11 : 106) ، (44 : 43) شین سے شہیق (11 : 106) ظاء سے ظل اور ظلیل (77 : 30 ، 31) فاء سے یفرقون (30 : 14) اور افتری (20 : 61) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد جہنم کے سات دروازے ہیں جیسے (الحجر : 44) میں بیان کیا گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس سورت سے سات حرف ساقط فرمائے ہیں اور ساتوں حروف عذاب پر دلالت کرتے ہیں اور اس پر اشارہ ہے کہ جو شخص اس سورة کو پڑھے گا وہ دوزخ کے ان سات دروازوں یعنی ساتوں طبقات دوزخ سے امان پائے گا۔ ( کامل علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہی اصل حقیقت کو جانتا ہے) ۔ رکوعات کی تقسیم نبی کریم ﷺ سے بعد کی تقسیم ہے : 5 : سورت کے اندر کی ایک بڑی تقسیم کا نام رکوع ہے۔ بڑی سورتوں میں اکثر رکوع دس سے پندرہ آیتوں تک رکھے گئے ہیں اگرچہ کہیں کہیں ان سے کم یا زیادہ آیتیں بھی موجود ہیں۔ اور یہ اتنی مقدار ہے جو تقریباً ایک رکعت میں پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کی پابندی لازمی اور ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں۔ سورة فاتحہ کے علاوہ تیسویں پارہ کی آخری 34 چھوٹی سورتوں میں بھی ایک ایک رکوع ہی شمار کیا گیا ہے نماز میں سورة فاتحہ پڑھ لینے کے بعد قرآن مجید میں سے کوئی چھوٹی سورة یا کسی بڑی سورة کا ایک رکوع یا چند آیتیں پڑھنا مسنون ہے البتہ فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعت میں صرف فاتحہ پڑھ لینے کے بعد بھی رکوع کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید میں رکوع کی تعداد 558 شمار کی گئی ہے۔ لفظ اللہ اسم ذات رب ذولجلال ہے : 6 : لفظ ” اللہ “ کی اصل ا ل ہ ہے۔ بعض کا قول ہے کہ ” اللہ “ اصل میں ” الہ “ ہے ہمزہ تخفیفاً حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام (تعریف) لا کر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا : ہَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا (رح) 0065 (19 : 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہم نام کا علم ہے۔ ” اللہ ، الٰہ ، آلھہ ، الٰہین ، اللہم میں سے اللہ “ کا لفظ قرآن مجید میں 2697 بار آیا ہے۔ ” الٰہ “ 111 بار اور ” الہٰین “ صرف دو بار ” آلھۃ “ کا لفظ 34 بار اور ” اللہم “ پانچ بار استعمال کیا گیا ہے۔ اسم کو اسم کیوں کہتے ہیں ؟ 7 : نام کو عربی زبان میں اسم کہتے ہیں اور ” اسم “ کی ” اصل “ س م و ہے۔ سما ، یسمو ، سمواً ، الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے۔ دراصل ہر شے کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں۔ اسم کی جمع اسماء اور تصغیر سمی۔ اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمّیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے یعنی پہچانا جاتا ہے۔ بسم اللہ کے الفاظ قرآن مجید میں تین بار آئے ہیں۔ 1 : بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (فاتحہ 1 : 1) 2 : وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا (ہود 11 : 41) 3 : اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ0030 (النمل 27 : 30) الرحمٰن اور الرحیم صرف اللہ ہی کی ذات ہے : 8 : ” بہت ہی مہربان بہت ہی پیار کرنے والا ہے “ یعنی ” الرحمٰن “ ” الرحیم “ کی ” اصل “ ر ، ح ، م ہے۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم پر احسان کی مقتضی ہو۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں۔ جب اس کے ساتھ ذات باری تعالیٰ متصف ہو تو اس سے صرف احسان مراد ہوگا جیسا کہ مروی ہے : ” ان الرحمۃ من اللہ انعام و افضال ومن الا دمیین رقۃ و تعطف “ یعنی اللہ کی طرف سے رحمت اس کے انعام و فضل سے عبارت ہوتی ہے اور لوگوں کی طرف سے رقت اور شفقت کے معنی میں آتی ہے۔ ” “ یہ دونوں فعلان اور فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں۔ جیسے ندمان و ندیم۔ پھر رحمٰن کا اطلاق اسی ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہرچیز کو سما لیا ہو ، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور الرحیم بھی اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اس کے معنی بھی بہت ہی زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر بھی جائز ہے قرآن مجید میں ہے : ” رؤف رحیم “ (9 : 128) کے الفاظ رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اور بعض نے رحمٰن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمٰن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے جو مؤمن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے ہے جو خاص کر مومنین پر ہوگی۔ ” الرحمٰن “ کا لفظ قرآن مجید میں 57 بار آیا ہے اور ” الرحیم “ کا 34 بار۔ سورة فاتحہ کی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم چونکہ آیات قرآنی میں شامل ہے اس لیے اس میں الرحمٰن الرحیم کو شامل کیا گیا ہے اور باقی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں سے ” الرحمٰن “ ، ” الرحیم “ کے الفاظ شامل نہیں کئے گئے اس لیے کہ وہ قرآن مجید میں شامل ہی نہیں وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم محض دو سورتوں کے درمیان فصل کے لئے بیان ہوئی ہے اگرچہ اس میں اختلاف بھی ہے۔ کیا تسمیہ فاتحہ کی آیت ہے ؟ 9 : مکہ مکرمہ اور کوفہ کے قراء اور اکثر فقہاء حجاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو سورة فاتحہ کی پہلی آیت تسلیم کرتے ہیں۔ اس قول کی تصدیق عبداللہ بن مبارک (رح) اور سفیان ثوری (رح) کے بیان سے بھی ہوتی ہے اس سلسلہ کی وضاحت اس طرح ہے کہ : 1 : ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورة فاتحہ پڑھتے تو بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (1) کو ایک آیت بناتے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ001 (2) کو دوسری آیت قرار دیتے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ002 (3) اور مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ003 (4) کو چوتھی آیت بناتے۔ (5) اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 کو پانچویں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ005 (6) کو چھٹی آیت قرار دیتے اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ 1ۙ۬ۦغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ (رح) 007 (7) کو ساتویں آیت بناتے۔ آیات کا یہ شمار آپ ﷺ کے وقفوں سے ثابت ہے۔ 2 : ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” فاتحہ ال کتاب سات آیات ہیں اور ان کی پہلی آیت ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ ہے “۔ 3 : ابی بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کیا تجھے اس آیت کی خبر ہے جو حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے بعد میرے سوا کسی نبی ﷺ پر نازل ہوئی ؟ “ میں نے عرض کیا نہیں ! آپ نے فرمایا ” جب نماز شروع کی جائے تو قرآن کی کونسی آیت شروع ہوتی ہے ؟ “ میں نے کہا ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” یہی ہے یہی ہے “ یعنی یہی وہ آیت ہے جو سلیمان (علیہ السلام) اور محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کی گئیں چناچہ سورة النمل 27 کی آیت تیس میں اس کا ذکر ہے اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تسمیہ قرآن کریم سے ہے قرآن سے باہر نہیں اور خصوصاً فاتحۃ ال کتاب کی پہلی آیت ہے۔ 4 : ثعلبی اپنی اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق (رح) سے وہ اپنے والد گرامی امام محمد باقر (رح) سے وہ جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا ” جب تو نماز قائم کرتا ہے تو کیسے کہتا ہے ؟ جابر نے کہا میں کہتا ہوں ” الحمد للہ رب العٰلمین “ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ نہیں کہہ ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “۔ 5 : ثعلی نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ جب میں نماز میں سورة فاتحہ کو شروع کرتا ہوں تو بسم للہ الرحمٰن الرحیم پڑھتا ہوں اور فرماتے جس نے اس کو پڑھنا چھوڑ دیا اس نے سورة کی آیت میں کمی کی۔ 6 : ثعلی نے اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن جبیر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ” وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ “ (15 : 87) یعنی آپ ﷺ کو دہرائی جانے والی سات آیات کریمات دی گئی ہیں کی تفسیر میں فاتحۃ ال کتاب ہے اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو نہ چھوڑو کیونکہ یہ سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے۔ 8 : ثعلبی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (یعنی حدیث قدسی ہے) کہ میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان سورة فاتحہ کو آدھا آدھا تقسیم کیا ہے۔ جب بندہ ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ کہتا ہے ہے تو اللہ سبحانہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی اسی طرح ساتوں آیتوں کے جوابات بیان فرمائے۔ “ 9 : ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں تھا اور رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓ سے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز شروع کردی ، تعوذ کو پڑھا اور پھر الحمد للہ سے پڑھنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے سنا اور اسے فرمایا اے شخص ! تو نے اپنی نماز قطع کرلی کیا تو نہیں جانتا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة فاتحہ سے ہے ؟ جس نے اسے چھوڑ دیا تو اس نے اس سے ایک آیت چھوڑ دی اور جس نے ایک آیت کو چھوڑ دیا اس نے اپنی نماز قطع کرلی اس لیے کہ فاتحۃ ال کتاب کے بغیر صلوٰۃ نہیں ہوتی تو جس نے اس سے ایک آیت ترک کردی اس کی نماز باطل ہوگئی۔ 10: طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بسم للہ الرحمٰن الرحیم کو چھوڑ دیا اس نے قرآن مجید کی ایک آیت کو چھوڑ دیا۔ معلوم رہے کہ یہ سب روایات تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے شیخ ابی اسحاق ثعلبی (رح) کی تفسیر سے مع شئی زائد نقل کی ہیں۔ آپ چاہیں تو اصل کی طرف مراجعت کریں۔ 11: رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اعظم آیت کونسی ہے ؟ ابی بن کعب ؓ نے کہا : ” بسم للہ الرحمٰن الرحیم “ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” صحیح ہے “ ۔ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ سورة النمل کی آیت 27 میں جو بسم اللہ ہے وہ پوری آیت نہیں بلکہ آیت کا یک جزء ہے کیونکہ پوری آیت ہے : اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ0030 زیر نظرحدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد پوری آیت سے ہے۔ اور پوری مکمل آیت سب سے پہلے سورة فاتحہ ہی کی آیت ہو سکتی ہے۔ 12: امیر معاویہ ؓ مدینہ منورہ میں آئے اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی یعنی معاویہ نے جماعت کرائی جب اس میں سورة فاتحہ پڑھی تو بسم اللہ کو جہر نہ پڑھا تو ہر گوشہ سے آواز بلندہوئی بسم اللہ لرحمٰن الرحیم یعنی معاویہ ؓ بھول گئے تو امیر معاویہ ؓ نے ام القرآن کو دوبارہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے پڑھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات صحابہ ؓ کے اجماع پر دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة فاتحہ کی پہلی آیت ہے ایک روایت میں ہے کہ پوری نماز پڑھ چکنے کے بعد مسئلہ پیدا ہوا تو امیر معاویہ ؓ کے دوبارہ نماز پڑھانے پر یہ بات ختم ہوئی اور دوسری صورت پہلی سے بھی قوی ہے ۔ فتدبر۔ 1971 ء کی بات ہے جب کبھی بندہ ناچیز ادارۃ القرآن کراچی کی کتابت کا کام کیا کرتا تھا مولانا نور احمد صاحب مرحوم بانی ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ نے قرآن مجید کی اشاعت کے لئے ناچیز سے مشورہ کیا۔ اس مشورہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے فاتحہ کی پہلی آیت ہونے پر گفتگو ہوگئی یہ گفتگو زبانی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں طے پایا کہ مولانا مفتی محمد شفیق صاحب (رح) بانی دار العلوم کراچی جو مولانا موصوف کے سسر بھی ہوتے تھے سے اس کی تسلی کے لئے رابطہ کیا جائے۔ چناچہ اگلے روز ” دار العلوم “ میں مفتی صاحب مرحوم و مغفور سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا۔ مفتی صاحب نے اس سلسلہ میں جو اپنی تحقیق بیان فرمائی اس کا ماحصل یہ تھا کہ قرآن کی 112 بسم اللہ جو سورة توبہ کے علاوہ باقی سورتوں پر تحریر ہیں ان میں سے ایک بسم اللہ یقیناً قرآن کریم کا جزء ہے اور قراء حضرات جو قرآن کریم کو تراویح میں پڑھتے ہیں ان کو ایک بسم اللہ بلند آواز سے ضرور پڑھنی چاہئے اور یہ بسم اللہ سورة نمل کے اندر جو بسم اللہ ہے اس کے علاوہ ہو ۔ دل اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ ” بسم اللہ “ سورة فاتحہ ہی کی قرار دینا سنت نبوی ﷺ کے زیادہ قریب ہے لہٰذا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ سورة فاتحہ کی ” بسم اللہ “ ہی فاتحہ کی پہلی آیت ہے۔ “ بندئہ ناچیز نے عرض کیا کہ حضرت اس پر آپ کی طرف یہ ایک تحریر ہوجائے تو بہت بہتر ہے مولانا نور احمد صاحب مرحوم نے بھی میری پر زور تائید کی لیکن مفتی صاحب مرحوم نے اس پر کچھ تحریر کرنے سے معذرت کرلی۔ تاہم مولانا نور احمد صاحب نے مصمم ارادہ کرلیا کہ جو قرآن مجید ہم ” ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ “ سے طبع کریں گے اس میں سورة فاتحہ کی ” بسم اللہ “ پر فاتحہ کی پہلی آیت کا نمبر ایک ضروردیا جائے گا چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جس کی زندہ شہادت آج بھی موجود ہے مذکورہ ادارہ کے قرآن مجید میں سورة فاتحہ کی ” بسم اللہ “ کو آیت نمبر ایک شمار کیا گیا ہے۔ مولونانور احمد صاحب مرحوم ” رابطہ عالم اسلامی “ کے رکن بھی تھے۔ انہوں نے اس مسئلہ کو ” رابطہ عالم اسلامی “ کے علماء میں پیش کیا اور ان مجالس کی اکثر رپورٹوں کا ذکر ہماری ملاقات میں ایک مدت تک ہوتا رہا۔ الحمدللہ کہ اس کے نتیجہ میں ” الملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود “ نے جو قرآن مجید مدینہ طیبہ سے طبع کرائے ان میں بھی سورة فاتحہ کی ” بسم اللہ “ کو فاتحہ کی پہلی آیت تسلیم کرلیا گیا جس کی شہادت بھی مدینہ طیبہ کے طبع شدہ قرآن کریم پیش کر رہے ہیں اور ازیں بعد کو یت سے جو قرآن کریم طبع ہو رہے ہیں ان میں بھی سورة فاتحہ کی ” بسم اللہ “ کو فاتحہ کی پہلی آیت کا مقام مل گیا کیونکہ انہوں نے بھی ” بسم اللہ “ کو سورة فاتحہ کی پہلی آیت تسلیم کرتے ہوئے ” بسم اللہ “ کے ختم پر آیت کے نشان میں نمبر ایک دے دیا ثم الحمدللہ۔ ازیں بعد بندہ ناچیز نے مولانا نور احمد صاحب سے ایک مجلس میں جو مولانا نصیر الدین چلاسی صاحب مدظلہ العالیٰ کے پاس ایبٹ آباد میں قائم ہوئی یہ گزارش کی مولانا صاحب ماشاء اللہ آپ نے اس سنت نبوی ﷺ کو زندہ کرنے میں بہت کام کیا اب میری گزارش یہ ہے کہ جب ” بسم اللہ “ سورة فاتحہ کی آیت نمبر ایک تسلیم ہے تو جہر نماز میں جب امام فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ فاتحہ کو الحمدللہ سے شروع کرتا ہے تو گویا وہ فاتحہ کی پہلی آیت کو جہر نہیں کرتا جس کا مطلب صاف ہے کہ وہ فاتحہ کی چھ آیات تلاوت کرتا ہے اور ایک آیت کو یا تو چھوڑ دیتا ہے یو پھر خفی کرتا ہے جس پر تلاوت کا لفظ یقیناً نہیں بولا جاسکتا اور باتوں ہی باتوں میں مولانا چلاسی صاحب مدظلہ نے بھی میری تائید فرما دی لیکن کوئی فیصلہ کن بات نہ ہوئی کہ مجلس برخاست ہوگئی اور اگلے روز ہم واپس اپنے اپنے مقام کی طرف لوٹ گئے اس کے بعد ابھی ملاقات نہیں ہوئی تھی کہ مولانا نور احمد صاحب انتقال فرماگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ یہ دروازہ بند ہوجانے کے بعد بندئہ ناچیز نے مختلف علمائے اسلام سے رابطہ کیا کئی ایک مفتیوں سے استفتاء بھی کیا لیکن تاحال کوئی قابل ذکر جواب نہیں آیا جس کا ذکر کیا جائے۔ ” بسم اللہ “ جہر نہ کرنے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث بیان کی جاتی ہے : عن انس ؓ صلیت مع رسول اللہ صلوسلم عل وابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احدا منھم یقرا بسم اللہ الرحمن الرحیم ” انس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ ، عمر فاروق ؓ اور عثمان غنی ؓ کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی نے بھی نماز میں ” بسم اللہ “ کو جہر نہیں پڑھا۔ حالانکہ اس میں سورة فاتحہ کا کہیں ذکر نہیں کہ فاتحہ پڑھتے وقت آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے اصحاب ثلاثہ نے ” بسم اللہ) جہر نہیں پڑھی۔ اس لیے یہاں یہ احتمال موجود ہے کہ فاتحہ کے بعد جب کوئی سورت ملائی تو بسم اللہ جہر نہیں پڑھی جبکہ کوئی سورت جہر پڑھی۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ مسئلہ ہی دوسرا ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں کیونکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ” بسم اللہ “ سورة فاتحہ کی پہلی آیت ہے اور اگر اس کو جہر نہ کیا جائے تو فاتحہ کی ایک آیت جہر نہیں ہوگی اور فاتحہ کو جہر پڑھنے کا ذکر واضح طور پر موجود ہے جس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے چونکہ یہ دوسرا مسئلہ ہے کہ ہر سورت پر جو ” بسم اللہ “ تحریر ہے کیا وہ سورة کی مستقل آیت ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) اس کو ہر سورة کا جز نہیں تسلیم کرتے اور امام شافعی (رح) ہر سورت کی ایک مستقل آیت تسلیم کرتے ہیں۔ پھر تعجب یہ ہے کہ امام شافعی (رح) کے دلائل میں بھی صحیح مسلم ہی کی حدیث پیش کی گئی ہے جس سے امام شافعی (رح) نے استدلال کیا ہے کہ ” بسم اللہ “ ہر سورة کی ایک مستقل آیت ہے چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ : عن انس بن مالک قال بینا رسول اللہ۔ ذات یوم بین اظھرنا اذا اغفی اغفاۃ ثم رفع راسہ متسبما فقلنا ما اضحک یا رسول اللہ انزلت علی انفا سورة فقراء ” بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انا اعطینک الکوثر۔ فصل لربک ونحر۔ ان شائنک ھو الابتر۔ “ ” انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ پر ایک خاص حالت طاری ہوئی جب طاری ہوئی آپ ﷺ خاموش تھے پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور آپ ﷺ مسکرا رہے تھے ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کس چیز پر مسکرا رہے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی قرآن مجید کی ایک سورة نازل ہوئی چناچہ آپ ﷺ نے سورة تلاوت کرنا شروع کی اور آپ ﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ پوری سورة ” الکوثر “ تلاوت فرمائی) ۔ جس سے امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ” بسم اللہ “ ہر سورة کی ایک مستقل آیت ہے جیسا کہ ” الکوثر “ کے ساتھ آپ ﷺ نے اس کو تلاوت فرما کر یہ سمجھا دیا کہ ” بسم اللہ الکوثر “ کی ایک مستقل آیت ہے۔ اس حدیث سے امام شافعی بسم اللہ ہر سورة کا جز ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ جہری نماز میں ” بسم اللہ “ جہر نہ پڑھنے والوں سے میری اتنی مزید گزارش ہے کہ جب آپ مسلم شریف کی اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس میں صراحت موجود نہیں جس حدیث میں صراحت ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ : ” فی اول قراۃ ولا فی اخرھا “ جس سے پھر ایک نیا موضوع شروع ہوجاتا ہے جو ” بسم اللہ “ جہر یا عدم جہر سے مختلف ایک تیسرا موضوع ہے کیا وہ صحیح مسلم کی اس حدیث کو نہیں پڑھتے جو استدلال میں پیش کردہ حدیث کے ساتھ ہی اگلی صاف اور صریح حدیث ہے۔ اور اس میں دعائے استفتاح جہر پڑھنے کا حکم ہے۔ حدیث یہ ہے : عن عبدۃ ان عمر بن الخطاب کان یجھر بھولاء الکلمات یقول سبحنک اللم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک (صحیح مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ) عبدہ نے بیان کیا کہ حضرت فاروق اعظم ؓ دعائے ثناء یعنی کلمات ذیل بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ” سبحنک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک “ ۔ ہمارے جن بھائیوں نے ” بسم اللہ “ کو جہر کرنا ترک کیا انہوں نے ثناء کے ان الفاظ کو جہر پڑھنا شروع کردیا ہے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کیا یہ حدیث صحیح مسلم کی نہیں ہے ؟ کیا آپ کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے ؟ صحیح مسلم کی ایک سے زیادہ احادیث ہیں جن میں ظہر و عصر اکھٹی پڑھنے کا ذکر ہے۔ ایک حدیث درج ذیل ہے۔ عن ابن عباس ؓ قال رسول اللہ۔ الظھر والعصر جمعیا بالمدینۃ فی غیر خوف ولا سفر (جلد اول کتاب الصلوٰۃ) عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا۔ نہ تو کسی قسم کا وہاں خوف و ہراس تھا اور نہ ہی کوئی سفر درپیش تھا۔ صحیح مسلم میں تین آدمیوں کی صورت میں امام کا درمیان کھڑا ہونا اور دونوں مقتدیوں میں ایک دائیں اور دوسرے کا بائیں میں کھڑا ہونے کا حکم ہے کہ ابن مسعود نے دو آدمیوں کو جماعت کرائی تو ایک کو بائیں اور دوسرے کو دائیں کھڑا کیا اور خود درمیان میں کھڑے ہوئے پھر ایک حدیث میں رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر رانوں کے درمیان میں رکھنے کا ذکر بھی ہے۔ تشہد میں دایاں پائوں بچھا کر بیٹھنے کا بھی ذکر ہے۔ ان پر عمل کیوں نہیں ہے ؟ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ جلد اول) ہمارے جو بھائی صحیح مسلم کی حدیث کی پیش نظر ” بسم اللہ “ جہر ترک کر بیٹھے ہیں کیا انہوں نے اپنے ہاں ظہر و عصر کو اکھٹا پڑھنا شروع کردیا ہے ؟ کیا وہ تین آدمی ہونے کی صورت میں امام کو درمیان میں کھڑا کرتے ہیں ؟ کیا وہ رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر رانوں کے درمیان رکھ لیا کرتے ہیں ؟ کیا وہ تشہد میں دایاں پائوں بھی بچھا لیتے ہیں ؟ کیا یہ احادیث صحیح مسلم کی نہیں ہے ؟ بسم اللہ قرآن کریم کا افتتاحی کلمہ ہے اور یہاں کچھ محذوف بھی ہے : 10: قرآن مجید کا یہ افتتاحی فقرہ بجز ایک سورت کے ہر سورت کی ابتداء میں دہرایا گیا ہے یعنی 112 بار اور سورة نمل کے اندر عبارت میں بطور آیت قرآنی بھی آیا ہے اس لئے اس پر یہ بحث کرنا کہ آیا یہ قرآن کریم ہے یا نہیں ؟ بالکل صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرآن مجید کا جزو ہے۔ البتہ اس میں گفتگو کی جاسکتی ہے اور کی گئی ہے کہ آیا ہر سورت کی ابتداء میں بھی اس کی حیثیت ایک مستقل آیت کی ہے ؟ بعض نے اس کو ہر سورة کی ایک مستقل آیت قرار دیا ہے اور بعض نے صرف دو سورتوں کے درمیان ایک امتیازی کلمہ قرار دیا ہے لیکن سورة فاتحہ میں تو یہ امتیاز بھی قائم نہیں ہوتا کیونکہ فاتحہ سے پہلے کوئی سورت موجود ہی نہیں جس کے اور فاتحہ کے درمیان اس کو ” بطور فصل “ تسلیم کیا جائے اس کی تفصیل دیکھنا منظور ہو تو ” الاتقان “ امام سیوطی اور ” احکام القرآن “ رازی کا مطالعہ کریں۔ یہاں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے کہ ہر مکتبہ فکر اس بات کو تسلیم کرتا ہے اور کسی کو بھی اس میں اختلاف نہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ” اعوذ باللہ “ کی تلاوت نہایت ضروری ہے وہ جہر پڑھی جائے یا دل میں پڑھ لی جائے دونوں طرح صحیح اور درست تسلیم کیا گیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پوری امت کا اسی پر عمل بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود قرآن مجید کو شروع کرتے وقت اور دو سورتوں کے درمیان کہیں بھی تعوذ کو نقل نہیں کیا گیا صرف تلقین کی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اس کا حکم بھی موجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ : فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ” کہ جب تو قرآن کو پڑھے تو اعوذباللہ پڑھ لیا کر “ ۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کا معمول بھی یہی تھا کہ جب آپ ﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو تعوذ پڑھتے اور پڑھنے کا حکم فرماتے۔ قرآن مجید میں تعوذ کا حکم موجود ہونے کے باوجود کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ ” اعوذ باللہ “ قرآن مجید کا جزو ہے۔ لیکن اس کے برعکس قرآن مجید جب نبی کرم ﷺ کے سامنے تحریر کیا گیا تو آپ ﷺ نے حکما ً بسم اللہ تحریر کرائی۔ صرف زبانی تلقین نہیں فرمائی۔ آپ ﷺ نے یہ حکم فرمایا کہ جب کوئی نیک کام شروع کرو تو ” بسم اللہ “ پڑ لیا کرو۔ ہر جائز کام کی ابتداء ” بسم اللہ “ سے کرنے کی بڑی فضیلتیں حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ آپ ﷺ کی عادت مبارک بھی یہ تھی کہ کھانا کھاتے ، پانی پیتے اور وضو کرتے غرض اس قسم کے سارے کاموں کی ابتداء بسم اللہ ہی سے کرتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص کسی کام کو خدائے رحمٰن و رحیم کا نام لے کر شروع کرتا ہے وہ عملاً اسی بات کا اعلان کرتا ہے کہ میرا ضمیر پاک و صاف ہے ، میری نیت مخلصانہ ہے۔ میرا مقصود اعلیٰ ہے اور میں اللہ واحد کا پرستار ہوں۔ ایک طرف شرک سے اور دوسری طرف الحاد سے بیزار۔ غرض بسم اللہ سے بڑھ کر قوت بخش اور اس سے زیادہ روح و اخلاق کو بلند کرنے والا ذکر کوئی اور نہیں ہے۔ ان سب جگہوں پر ” بسم اللہ “ کی حیثیت سنت کی ہے فرض کی نہیں۔ اکثر یہ کہا گیا ہے کہ بسم اللہ کی ” ب “ نحویوں کی اصطلاح میں باء الا ستعانت کہلاتی ہے پڑھنے والا گویا یوں کہتا ہے کہ میں شروع کرتا ہوں اس کلام کو یا اس کام کو اللہ کے نام سے مدد چاہتے ہوئے اور یہ کہ بسم اللہ پڑھنے والا اپنی اور سب کی طرف سے قطع نظر کر کے صرف اللہ کی ذات پر تکیہ کرلیتا ہے۔ یہ مفہوم اپنی جگہ بالکل صحیح ہے اور ہر کام کو شروع کرتے وقت جو ” بسم اللہ “ پڑھی جاتی ہے اس کا یہی مفہوم لے کر پڑھنا چاہئے۔ یہاں ” بسم اللہ “ کو قرآن مجید کا جزو تسلیم کر کے جب ” بسم اللہ “ کی تلاوت کی جائے گی تو یقیناً اللہ کا وہ حکم آنکھوں کے سامنے آجائے گا جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رسول اللہ ﷺ کو وحی کی نعمت عظمیٰ سے نوازا اور حکم دیا کہ ” اقراء “ پڑھ۔ لہٰذا اس کو اگر یہاں بھی محذوف مانا جائے کہ ” اقراء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ یعنی پڑھ اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور بہت پیار کرنے والا ہے۔ تو یہ ” محذوف “ بالکل وہی ہوگا جو خود اللہ تعالیٰ نے شروع وحی میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب فرما کر فرمایا : جیسا کہ سورة العلق میں ہے : ” اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ “ اپنے رب کے نام سے پڑھ۔ لہٰذا تلاوت قرآن مجید کے وقت جو بسم اللہ قرآن مجید کا جزو سمجھتے ہوئے تلاوت کی جائے گی تو اس کو مد نظر رکھنا زیادہ روح قرآنی کے قریب نظر آتا ہے ہم نے اس کے پیش نظر ترجمہ میں (پڑھو) کے لفظ کو تحریر کیا ہے جو ” اقراء “ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہاں پر پہلی وحی کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔ محدثین نے آغاز وحی کا قصہ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ امام زہری سے اور انہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اور انہوں نے اپنی خالہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے نقل کیا ۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء سچے اور بعض روایات کے مطابق اچھے خوابوں کی شکل میں ہوئی۔ آپ ﷺ جو خواب میں دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ آپ ﷺ نے دن کی روشنی میں دیکھا ہے پھر آپ ﷺ تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی شب و روز غار حرا میں رہ کر عبادت کرنے لگے۔ (چونکہ ابھی تک اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کو عبادت کا طریقہ نہیں بتایا گیا تھا) اس لئے یہ عبادت محض تدبر و تفکر فی الافاق تھا۔ آپ ﷺ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے اور پھر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور آپ ﷺ کے تقاضا کے مطابق وہ مزید چند روز کے لئے سامان آپ ﷺ کے لئے مہیا کردیتی تھیں۔ ایک روز جب آپ ﷺ غار حرا میں تھے یکایک آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتے نے کوئی تحریر کی ہوئی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کی۔ اور کہا کہ اس کو پڑھو۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نبی کریم ﷺ کا قول نقل کرتی ہیں کہ : ” میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘ ‘ اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ کر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت جواب دینے لگی اور پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں اس طرح تین بار ہوا اور تیسری بار اس نے بھینچا اور ساتھ ہی کہا۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ001 (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا یہاں تک کہ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ005 تک پہنچ گیا۔ ازیں بعد آپ ﷺ پر کپکپی طاری ہوگئی اور حصرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا پنتے لرزتے ہوئے وہاں سے واپس آئے۔ حضرت خدیجہ ؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اوڑھادو۔ چناچہ خدیجہ ؓ نے کپڑا اوڑھا دیا۔ جب آپ ﷺ کی کپکپی دور ہوئی۔ تو آپ ﷺ نے سارا واقعہ خدیجہ ؓ سے بیان کیا ، نہ معلوم خدیجہ کیا ہونے والا ہے ؟ اس باہمت خاتون نے کہا۔ ہرگز نہیں آپ ﷺ خوش ہوجائیے خدا کی قسم آپ ﷺ کو اللہ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ رشتے داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں۔ امانتیں ادا کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ آپ ﷺ بےسہارا لوگوں کا سہارا ہیں ناداروں کو دینے والے ہیں اور نیک کام پر ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کو اللہ نہیں چھوڑے گا نبی رحمت ﷺ نے کپڑا اڑھا دو کے الفاظ کہہ کر گویا اس خاتون اول کے دل کو حاصل کرلیا جو اس راہ کی ساری مشکلوں کا صحیح حل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو کوئی خوف و ڈر نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا ساری فکر بس یہی تھی کہ اس بار گراں کے بعد گھر والوں کا کیا ہوگا ۔ جو میری کفالت میں ہیں ان کا کیا بنے گا اور یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں اور ان سب انسانی تقاضوں کا آپ ﷺ نے ایک جملہ میں ایسا نہ ٹوٹنے والا حل تلاش کیا جس میں آپ ﷺ کی کامیابی کا اصل راز تھا کہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ افسوس اس بات کو اہل اسلام کے بعض ناقدر شناس لوگوں نے اس جملہ پر طرح طرح کے اعتراض کئے ہیں جن میں ایک اعتراض بھی ان کا معقول نظر نہیں آتا اور حالات و واقعات نے ثابت بھی کردیا کہ آپ ( صلوسلم عل) کی فراست نے جو فیصلہ کیا۔ مشیت ایزدی نے اس فیصلہ کو قومی ترقی کا زینہ قراردیا علاوہ ازیں بھی اس پر گفتگو کی گئی ہے لیکن جگہ کی قلت مانع ہے اور اس طرح ہم اصل مضمون سے دور نکل جائیں گے۔ اس کا موقع آئے گا تو مزید گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ !
Top