Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
سب اچھی تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں جو تمام مخلوق کا پروردگار ہے
تمام خوبیوں کا مالک صرف اللہ ہی ہے : 11: ” الحمد “ کی ” اصل “ ح م د ہے۔ الحمد للہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی فضلیت کے ساتھ اس کی ثناء بیان کرنے کے ہیں۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے۔ سب خوبیاں اور ستائشیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ ” الحمد “ کا لفظ قرآن مجید میں 28 بار اور ” الحمد للہ “ 23 بار آیا ہے۔ الحمد للہ رب العالمین کا پورا جملہ (فاتحہ 1 : 2) (الانعام 6 : 45) (یونس (10 : 10) (الصافات 37 : 182) (الزم 39 : 75) (ال مومن 40 : 65) یعنی کل چھ بار استعمال ہوا ہے۔ الحمد للہ رب العالمین فاتحہ کی دوسری آیت ہے۔ لفظ عالمین کی تحقیق لغت میں : 12: ” العالمین “ کی ” اصل “ ع ل م ہے۔ امام راغب مفردات القرآن میں رقمطراز ہیں ” عالم “ آسمان اور آسمان کے نیچے جو جواہر و اعراض ہیں ان سب کا نام ہے۔ یہ اصل میں اسم ہے اس چیز کا جس کے ذریعے علم حاصل کیا جائے۔ جس طرح سے طابع (ٹھپہ) اور خاتم (مُہر) ان اشیاء کے اسم ہیں جن سے ٹھپہ لگایا جاتا ہے اور مہر کی جاتی ہے اور اس صغیہ پر اس کی بناء بھی اس لیے رکھی گئی ہے کہ وہ بھی بمنزلہ آلہ کے ہے کیونکہ عالم اپنے بنانے والے کی طرف رہنمائی کا آلہ ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں ہم کو عالم ہی کا حوالہ دیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ 1ۙ اور اس کی جمع بھی اس لحاظ سے ہے کہ ان مخلوقات کی ہر نوح ” عالم “ کہلاتی ہے چناچہ کہا جاتا ہے عالم انسان ، عالم آب ، عالم آتش نیز کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ کے ” دہ وچند ہزار عالم “ ہیں اور جمع سالم کی وجہ یہ ہے کہ انسان بھی ان عالموں کے زمرہ میں شامل ہے اور جب کسی لفظ کا استعمال انسان اور غیر انسان دونوں کے لئے مشترک ہو تو انسان کا حکم غالب ہوتا ہے اور اس میں اور بھی اقوال پائے جاتے ہیں جن کی بحث بہت لمبی ہے۔ عالم جاننے والا ، علم رکھنے والا ، علم سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال جہاں حق تعالیٰ کی ذات عالی کے لئے خاص ہے وہاں اس کے معنی ہیں ” وہ ذات عالی کہ جس پر کوئی چیز مخفی نہ ہو اور وہ ہرچیز کی حقیقت سے باخبر ہو۔ امام راغب کہتے ہیں : والعالم فی وصف اللہ ھوالذی لا یخفی علیہ شئی و ذلک لا یصح الا فی وصفہ تعالی۔ ” عالم جب اللہ تعالیٰ کا وصف ہو تو اس کے معنی ہیں وہ ذات جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور یہ بات صرف اللہ تعالیٰ ہی کے وصف میں صحیح ہے۔ “ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف راہنمائی کرنے والا کون ہے ؟ 13: ” رب “ کی ” اصل “ رب ب ہے اور رب کے معانی ہیں پروردگار۔ مالک ، صاحب۔ یہ اصل میں ” رب یرب “ کا مصدر ہے جس کے معنی ترتیب کے ہیں اور پھر مبالغہ کے لئے ” عدل “ کی طرح بطور صفت استعمال کیا گیا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں کہ رب مصدر ہے جو فاعل کے لئے مستعار ہے۔ ترتیب کی تعریف امام موصوف نے ان الفاظ میں کی ہے : ” ھو انشاء الشئی حالا فحا لا الی حد التمام “ یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے ایک حالت سے دوسری حالت میں اس طرح نشو ونما دیتے رہنا کہ حد کمال تک پہنچ جائے۔ ” رب العالمین “ میں رب اللہ تعالیٰ کی صفت خاص کے طور پر بیان کی گئی ہے اور رب العالمین کا لفظ 73 بار قرآن کریم میں آیا ہے۔ ” رب “ کا لفظ قرآن مجید میں 84 بار آیا ہے اور ” رب جو دراصل ربی ہے 68 بار استعمال ہوا ہے اور واضح طور پر ” ربی “ کا لفظ 101 بار استعمال ہوا ہے ” رب “ جیسے ” الحمدللہ رب العٰلمین “ (فاتحہ 1 : 2) ” رب “ جیسے : وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (البقرۃ 2 : 126) ” ربی “ جیسے : اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ 1ۙ (البقرۃ 2 : 258) طلب کرنے اور مانگنے کے آداب لفظ ” حمد “ صرف اللہ ہی کے لیے ہے : 14: عربی زبان میں ” حمد “ ستائش ثنائے جمیل کو کہتے ہیں جس کا عام مفہوم ہے اچھی صفتیں ، اکثر اردو مترجمین نے اس کے معنی تعریف یا صفت کے کئے ہیں۔ لیکن تعریف یا صفت میں دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں کیونکہ تعریف یا صفت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔ لیکن تعریف یا صفت میں دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں کیونکہ تعریف یا صفت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔ لیکن عربی زبان میں ہر صفت یا ہر تعریف کو ” حمد “ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے صحیح معنی یہی ہوں گے کہ ” اچھی تعریفیں “ یا اچھی صفتیں ” الحمد “ پر الف لام استغراق کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور جنس کے لیے بھی۔ پس ” الحمدللہ “ کے معنی ہوئے کہ حمد وثناء میں سے جو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کیونکہ خوبیوں اور کمالات میں سے جو کچھ بھی ہے صرف اور صرف اس سے ہے اور اسی میں ہے۔ ” حمد “ سے سورت کی ابتداء کیوں کی گئی ؟ اس لئے کہ مغفرت الٰہی کی راہ میں انسان کا سب سے پہلا تاثر یہی ہے۔ جب کبھی بھی ایک سچا انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلے جو حالت اس کی فکر پر طاری ہوگی وہ قدرتی طور پر یہی ہوگی جسے اس جگہ تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ انسان کے لئے معرفت حق کی راہ کیا ہے ؟ سو قرآن مجید اس کے متعلق کہتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے کائنات خلقت میں تدبر و تفکر۔ اس لئے کہ مصنوعات کا مطالعہ انسان کو صانع حقیقی تک پہنچا دے گا چناچہ ارشاد ہوتا ہے : الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ (آل عمران 3 : 191) ” جو لوگ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں وہ بےاختیار یوں پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! یہ کارخانہ عالم تو نے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا “ ۔ اس غور و فکر کا سب سے پہلا اثر جو اس کے دل و دماغ پر طاری ہوگا وہ کیا ہوگا ؟ یہی کہ وہ دیکھے گا کہ خود اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہرچیز ایک مدبر قدیر اور صانع حکیم کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے۔ پس قدرتی طور پر اس کی روح جوش ستائش اور محویت جمال سے معمور ہوجائے گی اور وہ بےاختیار کہہ اٹھے گا کہ ” الحمد للہ “ ساری حمد و ستائش اسی کے لئے ہے جو معنی حسن و کمال ہے۔ ” سبحان اللہ والحمدللہ “ ۔ مزید غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ اس راہ میں فکر انسانی کی سب سے بڑی گمراہی یہی ہے کہ اس کی نظریں مصنوعات کے جلووں میں محو ہو کر رہ جاتی ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ وہ پردوں کے نقش و نگار دیکھ کر بےخود ہوجاتا ہے اور اس ذات کی جستجو نہیں کرتا جس نے اپنے جمال صفت پر یہ دلآویز پردے ڈال رکھے ہیں۔ دنیا میں مظاہر فطرت کی پرستش کی بنیاد اس کوتاہ نظری سے پڑی ہے اور ” الحمدللہ “ کا اعتراف دراصل اسی حقیقت کا اعتراف ہے کہ کائنات کا تمام جمال خواہ کسی گوشے میں ہو صرف ایک صانع حقیقی کی صفتوں ہی کا ظہور ہے۔ اب کون ہے جو جمال کو اچھی صفت سے تعبیر نہیں کرے گا ؟ نزول قرآن سے قبل ” اللہ “ کا لفظ خدا کے لئے بطور اسم ذات مستعمل تھا۔ قرآن مجید نے بھی یہی لفظ بطور اسم ذات اختیار کیا اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا 1۪ (الاعراف 7 : 180) ” اور اللہ تعالیٰ کے نام یعنی صفات بہت حسین و جمیل ہیں لہٰذا تم اس کو اس کے اسمائے حسنیٰ ” یعنی صفتوں میں سے جس صفت سے چاہو پکار سکتے ہو “ ۔ قرآن مجید نے یہ لفظ محض اس لئے اختیار نہیں کیا کہ لغت کے مطابقت کا مقتضی ہے بلکہ اس سے زیادہ اس میں اس کی معنوی موزونیت پوشیدہ ہے کیونکہ جب ہم اس کی معنوی حقیقت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس غرض کے لئے سب سے زیادہ موزوں لفظ یہی تھا۔ دنیا کی تمام قوموں کی زبانوں میں جن کا حال کچھ بھی اس صفحہ قرطاس میں منقول ہے یعنی طہرانی ، سریانی ، آرامی ، کلدانی ، حمیری اور عربی وغیرہ ، سب میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے۔ یہ الف ، لام اور ہاء کا مادہ ہے جیسا کہ لغات میں موجود ہے اور بلاشبہ اس کی اصل ” الٰہ “ ہے اور تمام لغات متفق ہیں کہ ” الٰہ “ کے معنی تحیر اور درماندگی کے ہیں۔ پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس لئے اسم قرار پایا کہ اس کے متعلق جو کچھ انسان جانتا ہے یا جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور درماندگی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کریں گے آپ کی عقل کی حیرانی اور درماندگی یقیناً بڑھتی ہی جائے گی یہاں تک کہ آپ جو نتیجہ اخذ کریں گے وہ یہی ہوگا کہ اس راہ کی ابتداء بھی عجز و حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا بھی عجز و حیرت ہی ہے۔ خدا کو اس کی صفتوں سے پکارنا ہے تو بلاشبہ اس کی صفتیں بیشمار ہیں۔ لیکن اگر صفات سے الگ ہو کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کرنا ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک متحیر کردینے والی ذات ہے اور جو کچھ اس کی نسبت سے کہا جاسکتا ہے وہ عجز و درماندگی کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چونکہ ” اللہ “ کا اسم خدا کے لئے بطور اسم ذات استعمال میں آیا اس لئے قدرتی طور پر ان تمام صفتوں پر حاوی ہوگیا۔ اگر ہم خدا کا تصور اس کی کسی صفت کے ساتھ کریں مثلاً ” الرب “ ” الرحمٰن “ ” الرحیم “ تو یہ تصور صرف ایک خاص صفت ہی میں محدود ہوگا۔ یعنی وہ ذات جس میں ربوبیت یا رحمت ہے لیکن جب ہم ” اللہ “ کا لفظ زبان پر لاتے ہیں تو فوراً ہمارا ذہن ایک ایسی ہستی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جو ان تمام صفات حسن و کمال سے متصف ہے جو اس کی نسبت بیان کی جاسکتی ہے۔ ؎ اے بروں ازوہم وقال وقیل من۔ خاک بر فرق من و تمثیل من ! ” الحمد “ کی ایک تقریر یہ ہے کہ ” الحمد “ میں الف لام استغراق کے لئے نہیں بلکہ جنس اور عہد خارجی کے لئے ہے اور قاعدہ نحو کے مطابق الف لام کا حقیقی معنی ہے ہی جنس اور عہد خارجی۔ استغراق کو محققین نے الف لام کا مجازی محمل قرار دیا ہے اور اس سے صرف وہی صفات مراد ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں ، اور وہ مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ یعنی صفات کارسازی یا بالفاظ دیگر صفات فاعلیہ یا صفات مافوق الاسباب مثلاً مالک و مختار ، متصرف و کارساز ، حاجت روا ، مشکل کشا اور دور و نزدیک سے یکساں طور پر سمیع وبصیر وغیرہ مطلب یہ ہے کہ تمام صفات الوہیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا اپنی صفات الوہیت بیان فرمائی ہیں چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے : 1: قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ 1ؕ (النمل 27 : 65) ” اے پیغمبر ! ﷺ “ ” آپ ﷺ انہیں کہہ دیں کہ زمین و آسمان کی ساری موجودات (جِنّ و انس اور فرشتوں) میں سے کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا ، غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم غیب کا ذکر ہے اور یہ صفت ” “ ” صفات الوہیت “ میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہے اور غیر اللہ میں یہ صفت نہیں ہوگی اور جو شخص یہ صفت غیر اللہ میں تصور کرے گا وہ گویا شرک کرے گا۔ 2: وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا ہُوَ 1ۚ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ 1ؕ (یونس 10 : 107) ” اور اگر وہ ” اللہ تعالیٰ “ اپنے قانون کے مطابق آپ کو کسی بیماری ، فقرو فاقہ یا کسی مصیبت میں مبتلا کردے تو دوسرا اس کے سوا کون ہے جو اس سے نجات دے سکے اور اگر وہ اپنے قانون کے مطابق تمہیں صحت ، توانائی ، تونگری اور بھلائی دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے فضل و کرم کو ٹالنے والا بھی کوئی نہیں ہے “ ۔ اس میں واضح فرمایا کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ” نفع و نقصان “ پہنچانے کی صفت الوہیت کے متعلق ہے اگر کسی نے غیر اللہ کو نفع و نقصان کا مالک متصور کیا تو گویا اس نے الوہیت کی خاص صفت میں کسی دوسرے کو شریک کردیا اور یہی شرک ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے : 3: وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ (نحل 16 : 53) ” دنیا میں جو نعمت بھی تم میں سے کسی کو ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی عطا کردہ ہے “ ۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق پر صبح و شام مختلف انعامات کی جو بارش ہوتی رہتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور اس ” نعمت “ کے عطا کرنے کے صفت میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ یہ صفت بھی خاص الوہیت کے متعلق ہے۔ ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے : 4: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ 1ؕ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ ۔ (فاطر 35 : 3) ” اے بنی نوع انسان ! اللہ تعالیٰ نے جو انعامات اور احسانات تم پر کئے ہیں انہیں فراموش نہ کر وہ تمہیں عدم سے وجود میں لایا اور تمہارے لئے آسمان سے باران رحمت برسا کر زمین سے تمہیں رزق بہم پہنچایا ، اس کے سوا اور کوئی ہے جو تمہیں یہ سب کچھ دے سکے ؟ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق و رازق اور منعم و مربی ہونے کی صفات کا ذکر فرمایا ہے اور یہ صفات ” الوہیت “ کے متعلق خاص ہیں ان کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک کرنا ہے جو ایک کھلا شرک ہے۔ علاوہ ازیں سینکڑوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات مخصومہ بیان کی گئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جو ” الوہیت “ سے متعلق ہیں اسی کے لیے خاص ہیں اور وہ سب مافوق الاسباب ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھ لی جائے کہ نظام عالم میں جو کام ہو رہے ہیں وہ دو حالتوں سے خالی نہیں یا تو وہ ماتحت الاسباب ہیں مثلاً بینائی اور شنوائی رکھنے والا آدمی اپنے اردگرد کی چیز دیکھ سکتا ہے اور قرب و جوار کی آوازیں سُن سکتا ہے یامثلاً ایک آدمی اناج یا پھل اگانا چاہتا ہے تو وہ اس کام کے لئے اسباب استعمال کرتا ہے یعنی زمین میں ہل چلاتا ہے اور اس کو اس قابل بناتا ہے کہ اس میں کاشتکاری ہوسکے پھر اس میں بیج ڈالتا ہے ، اسے پانی دیتا ہے اس کی نلائی وغیرہ کرتا ہے یہ تمام اسباب عادیہ ہیں ان کو استعمال میں لائے بغیر کام نہیں بن سکتا۔ دوسری قسم کے کام وہ ہیں ، جو مافوق الاسباب ہیں مثلاً : ساری کائنات کے ذرّے کو ہر وقت دیکھنا۔ زمین و آسمان کی چھپی ہوئی تمام چیزوں کا ہر آن مشاہدہ کرنا۔ اسباب عادیہ سے بالاتر اور ماوراء ہے۔ اسی طرح زمین کے پیٹ میں پڑے بیجوں ، تخموں اور گٹھلیوں کو شق کر کے ان پودوں کی شاخیں نکالنا انسانی دسترس سے باہر اور اسباب عادیہ سے بالاتر ہے تو معلوم ہوا کہ انسانی دسترس میں صرف وہی کام ہیں جو ماتحت الاسباب ہیں اور مافوق الاسباب سارے امور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کے تحت داخل ہیں۔ ” الحمد “ سے مراد وہ تمام صفات ہیں جو مافوق الاسباب ہیں یعنی مافوق الاسباب تمام اچھی صفتیں اور خوبیاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور ان میں سے ایک صفت اور خوبی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں نہیں پائی جاتی مشرکین مکہ چونکہ انہی صفات الوہیت یا مافوق الاسباب صفات ہی میں اپنے معبودوں کو خدا کا شریک سمجھتے تھے اس لئے ” الحمدللہ “ میں مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید اس طرح فرمائی گئی ہے کہ تمام مافوق الاسباب صفات اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں۔ ان شاء اللہ جوں جوں قرآن مجید کا مطالعہ کریں گے یہ بات روز روشن کی طرح صاف سامنے آتی جائے گی۔ مختصر یہ کہ سورة فاتحہ میں ” الحمدللہ “ ایک دعویٰ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام صفات کارسازی کا مستحق صرف اللہ ہے۔ اور اس کے بعد رب العالمین ، الرحمٰن الرحیم اور مالک یوم الدین ، یہ سب اس دعویٰ کی دلیلیں ہیں۔ ” رب “ بھی ” الٰہ “ کی طرح عالمی قومی زبانوں کا ایک کثیر الاستعمال لفظ ہے۔ عبرانی ، سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پانے والے ہی کے ہیں چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے اس لئے اسے بھی قدیم ترین تعبیرات سے سمجھنا چاہیے۔ چونکہ والدین ، معلم ، استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا۔ چونکہ عبرانی اور آدامی کا لفظ ” ربی “ اور ” رباہ “ پرورش کنندہ معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور اسی طرح قدیم مصری اور کلدانی زبان کا ایک لفظ ” رابو “ بھی انہی معنوں میں مستعمل ہوتا تھا اور اس سے ان ملکوں کی قدیم ترین و حدت کی خبر ملتی ہے۔ بہرحال عربی میں بھی ” ربوبیت “ کے معنی پالنے والے کے ہیں لیکن دوسری زبانوں کی نسبت عربی میں اس کو وسیع اور کامل معنوں میں بولا جاتا ہے اس لئے بعض ائمہ لغت نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے : ” ھو انشاء الشئی حالا فحالا الی حد التمام “ ۔ (مفردات راغب اصفہائی ، مادہ رب ب) یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما دیتے رہنا کہ وہ چیز اپنے حد کمال کو پہنچ جائے۔ اگر کوئی شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو پیسہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہوگا ، جود ہوگا ، احسان ہوگا لیکن وہ بات نہ ہوگی جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت کے لئے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اپنی طبعی حالت کے مطابق وقتاً فوقتاً جیسی ضرورتیں پیش آتی ہیں ان سب کا سروسامان اس انداز کے ساتھ ہوتا رہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص محبت اور شفقت کے ساتھ ہوتا نظر آئے۔ کیونکہ جو عمل محبت و شفقت سے خالی ہوگا وہ ربوبیت نہیں ہوسکتی۔ ربوبیت میں ایک ناقص ترین نمونہ ہم پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ دیکھو بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض ایک گوشت و پوست کا متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے وہ سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ پرورش محبت و شفقت ، حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طویل ترین سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کے حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے۔ پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں بیشمار ہیں اور ان کی نوعیت بھی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش ، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کے سروسامان ملتا رہے۔ حکمت الٰہی نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدوخال پیدا کردیئے ہیں یہ ماں کی ربوبیت ہے جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک بچہ کو پالتی ہے ، بچاتی اور سنبھالتی رہتی ہے اور ہر وقت اور ہر حال کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سروسامان مہیا کرتی رہتی ہے۔ جب بچہ کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذاکا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا رہا۔ جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی ، جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑلی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس ہر حالت و ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی و حفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہا۔ یہ صورتحال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار پھر غور کرو کہ جو چیز کسی انسان کے لئے باعث تکلیف ہوتی ہے اس سے نفرت ہونا لازمی و لابدی امر ہے کائنات ہستی میں اس کی ایک مثال بھی نہیں دی جاسکتی کہ جو شئے جان جیسی چیز کے لئے خطرے کا باعث ہو وہ ان سارے خطرات اور باعث ایذا ہونے کے باوجود پھر جان ہی سے زیادہ عزیز بھی ہوجائے یہ صرف ایک ماں کی مامتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا کر بچے کو جنم دیتی ہے اور وضع و رضع کی جانکاہ تکالیف برداشت کرنے کے باوجود اس بچہ کو جو اس کے لئے باعث ایذا ہوا ، پھر اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ مجازی ربوبیت کی یہ ناقص اور محدود مثال سامنے لائو اور ربوبیت الٰہی کو غیر محدود حقیقت کا تصور کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ” رب العٰلمین “ ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائنات اور اس کر ہرچیز کو پیدا کیا ہے اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سروسامان بھی کردیا ہے اور یہ پرورش کا سرو سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لئے جو کچھ مطلوب تھا وہ کچھ مل رہا ہے۔ دور نہ جائو ایک بار پھر ربوبیت الٰہی کی کارسازی پر غور کرو کہ کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت و دیعت کردی گئی اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات میں سب سے زیادہ پُرجوش اور سب سے زیادہ ناقابل تسخیر بنادیا گیا ہے ؟ دنیا کی کونسی طاقت ہے جو اس جوش کا مقابلہ کرسکتی ہے جسے ماں کی مامتا کہتے ہیں۔ جس بچے کی پیدائش اس کے لئے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت تھی ، جس کے متعلق رب ذوالجلال نے یوں وضاحت فرمائی ہے : حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ کُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ کُرْهًا 1ؕ (46 : 15) ” اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا۔ “ اس کی محبت اس کے اندر زندگی کا سب سے بڑا جذبہ مشتعل کردیتی ہے۔ جب تک بچہ سن رشد تک نہیں پہنچ جاتا وہ اپنے لئے نہیں بلکہ بچے کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ زندگی کی کوئی خود فراموشی نہیں جو اس پر طاری نہ ہوتی ہو اور راحت و آسائش کی کوئی قربانی نہیں جس سے اسے گزیر ہو۔ جب ذات جو فطرت انسانی کا سب سے زیادہ طاقتور جذبہ ہے اور جس کے انفعالات کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی وہ بھی اسی جذبہ خود فراموشی کے مقابلہ میں مضمحل ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ بات کہ ایک ماں نے بچے کے عشق میں اپنی زندگی قربان کردی فطرت مادی کا ایک ایسا معمولی واقعہ ہے جو ہمیشہ پیس آتا رہا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کی غرابت محسوس نہیں کرتے۔ غور طلب یہ ہے کہ ایک ماں میں یہ محبت کیوں رکھی گئی ؟ اس لئے کہ اس کے بچے کو پرورش کی احتیاج تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہرچیز ایسی ہے کہ اسے پرورش کی احتیاج ہے اور اسے پرورش مل رہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کوئی پرورش کرنے والا بھی موجود ہو۔ یہ پرورش کرنے والا کون ہے ؟ یقیناً وہ نہیں ہوسکتا جو خود پروردہ اور محتاج پروردگاری ہو۔ قرآن مجید اس کے متعلق ہمیں بتاتا ہے کہ وہی ” رب العٰلمین “ ہے۔ جو سب کا پرورش کرنے والا ہے لیکن اس کا کوئی پرورش کرنے والا نہیں۔ نظام ربوبیت میں ہر ایک چیز کی پرورش و نگرانی داخل ہے لیکن انسان چونکہ ہر ایک سے افضل و اعلیٰ ہے اس لئے انسان کا ذکر مخصوص کردیا گیا اس طرح انسانوں کو باور کرایا کہ یاد رکھو تمام انسانوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ نطفہ سے لے کر طفولیت تک اور طفولیت سے لے کر بڑھاپے تک تمام منازل سے انسان کو وہی گزارتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار سے اس حقیقت کو بیان فرمایا : اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَیْبَةً 1ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ 1ۚ وَ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ 0054 (روم 30 : 54) ” وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک حقیر سی بوند سے ضعف کی حالت میں پیدا کیا پھر اس ضعف اور کمزوری کے بعد قو ّت و توانائی بخشی پھر اس قو ّت و توانائی کے بعد ضعف اور کمزور کر کے بوڑھا کردیا وہ ہرچیز پر پوری اور کامل قدرت رکھتا ہے “ ۔ پھر انسانوں اور دوسری تمام اجناس کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ انسان اور دوسرے تمام حیوانات کے لئے اللہ تعالیٰ کس طرح روزی بھی بہم پہنچاتا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا : فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤۙ0024 اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّاۙ0025 ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّاۙ0026 فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّاۙ0027 وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًاۙ0028 وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاۙ0029 وَّ حَدَآىِٕقَ غُلْبًاۙ0030 وَّ فَاکِهَةً وَّ اَبًّاۙ0031 مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْؕ0032 (عبس 80 : 24 تا 32) ” پھر اے انسان ذرا اپنی خوراک پر تو غور کر کس طرح ہم نے اپنی قدرت سے مہیا کردی کہ پہلے تو آسمان سے موسلا دھار بارش برسائی پھر زمین کو عجب طریقے سے پھاڑ دیا۔ پھر اس میں غلہ جات اگائے ، انگور اور ترکاریاں پیدا کیں ، زیتون کے درخت اور کھجور کے جھنڈ پیدا کئے اور گھنے باغات اگائے اور قسم قسم کے پھل اور طرح طرح کے چارے نکالے۔ تاکہ یہ ساری چیزیں تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست و متاع حیات کا کام دیں۔ “ ان آیات کریمات سے بخوبی واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا نظام ربوبیت ساری کائنات پر حاوی ہے۔ انسان سے لے کر تمام حیوانات ، نباتات ، جمادات اور اللہ تعالیٰ کے ساری نوری ، ناری اور خاکی مخلوقات علویات اور سلفیات سب کا خالق و مربی و محافظ اور پروردگار وہی ہے۔ اایک انسان تمام دنیا سے آنکھیں بند کرلے لیکن بہرحال اپنی شب و روز کی غذا کی طرف سے تو آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ جو غذا اس کے سامنے دھری ہے اسی پر نظر ڈال لے۔ یہ کیا ہے ؟ گیہوں کا دانہ ہے۔ اچھا ! گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی و تکمیل تک کے تمام احوال و ظروف پر غور کرو۔ کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی وجود میں آسکتا تھا اگر تمام کارخانہ ہستی ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سرگرم عمل نہ رہتا ؟ پھر غور کرو کہ اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو ؟ سورة نحل میں یہی استدلال ایک دوسرے پیرائے میں بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ” اور دیکھو یہ چار پائے جنہیں تم پالتے ہو ان میں تمہارے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے ؟ ان کے جسم سے ہم خون و کثافت کے درمیان دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لئے ایک نہایت ہی لذیذ اور صحت بخش مشروب ہوتا ہے۔ اسی طرح کھجور اور انگور کے پھل ہیں جن سے نشہ کا عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہو۔ بلاشبہ اس میں ارباب عقل و بصیرت کے لیے ربوبیت الٰہی کی بڑی نشانی ہے۔ اور پھر دیکھو ! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال کر پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان چھپروں میں جو اس غرض کے لئے بلند کردی جاتی ہیں اپنے لئے گھر بنائے پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے پھر اپنے رب کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو ، چناچہ تم دیکھتے ہو کہ اس کے جسم سے مختلف رنگتوں کا رس نکلتا ہے جس میں انسان کے لئے شفا ہے بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں ربوبیت الٰہی کی بڑی نشانی ہے۔ “ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۠0013
Top