Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
جو رحمت والا ، بہت پیار کرنے والا ہے
رحمت الٰہی کی وسعت ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے : 15: ” الرحمٰن “ اور ” الرحیم “ اگرچہ دونوں اسم رحمت سے ہیں لیکن یہ رحمت کے دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ رحمت کا ایک پہلو رحمت عامہ سے تعلق رکھتا ہے جس کو ” الرحمٰن “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی وہ رحمت جو محض صفت عارضہ ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لئے یکساں کام کرتی ہے۔ ” الرحیم “ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس سے ہمیشہ رحمت کا ظہور ہوتا ہی رہتا ہے اور ہر آن اور ہر لمحہ تمام کائنات خلقت اسی سے فیضیاب ہورہی ہے۔ اگر اس کی صفت ” الرحیم “ نہ ہوتی تو ہر ظالم اور زیادتی کرنے والا ظلم اور زیادتی کرتے ہی اس کے نتیجہ سے دو چار ہوجاتا اور اس کو معافی طلب کرنے کی بھی مہلت نہ ملتی۔ رحمت کو دو الگ الگ صفتوں سے کیوں تعبیر کیا گیا ؟ اس لئے کہ قرآن کریم خدا کا جو نقشہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہے اس میں سب سے نمایاں اور سب صفات پر چھائی ہوئی صفت ، رحمت ہی کی صفت ہے بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر وہ رحمت ہی رحمت ہے۔ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ 1ؕ (7 : 156) ” اور میری رحمت دنیا کی ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ پس ضروری ہوا کہ خصوصیت کے ساتھ اس کی صفتی اور فعلی دونوں حیثیتیں واضح کردی جائیں یعنی اس میں رحمت ہے کیونکہ وہ ” الرحمٰن “ ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اس سے رحمت کا ظہور بھی ہورہا ہے کیونکہ وہ رحمٰن ہونے کے ساتھ ساتھ ” الرحیم “ بھی ہے۔ ” الرحمٰن الرحیم “ فاتحہ کی تیسری آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا اظہار ہر نبی (علیہ السلام) نے اپنے اپنے وقت میں کیا۔ الہامی کلام کی یہ سبے بڑی خوبی ہے کہ اس میں مجازات کی کثرت ہوتی ہے اور وہی مجازات ہیں جو اس کی تاثیر کا زیور اور اس کی دلنشینی کی خوبروئی ہیں لیکن افسوس کہ دنیا والوں نے ہمیشہ ان کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی اور مجازات کو حقیقت سمجھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہوگئے۔ مثلاً مسیح (علیہ السلام) نے کہا ہے کہ ” دشمنوں سے پیار کرو “ تو یقیناً اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے دشمنوں کا عاشق زار ہوجائے بلکہ سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ تم میں غیظ و غضب اور نفرت و انتقام کی جگہ رحم و محبت کا پرجوش جذبہ ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے کہ دوست تو دوست دشمن تک کے ساتھ عفور و درگزر سے پیش آئو۔ اس مطلب کے لئے کہ رحم کرو ، بخش دو ، معاف کرو انتقام کے پیچھے نہ پڑو۔ یہ ایک نہایت ہی بلیغ اور مؤثر پیرایہ بیان ہے کہ : ” دشمنوں تک کو پیار کرو “ ایسے ماحول میں جہاں اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی رحم و محبت کا برتائو نہ کیا جاتا ہو یہ کہنا کہ اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کرو رحم و محبت کی ضرورت کا ایک اعلیٰ اور کامل ترین تخیل ہے لیکن افسوس کہ لوگوں نے اس کو کیا سمجھا ؟ ” الرحمٰن “ ” الرحیم “ کی رحمت کا شاہکار خود بانی اسلام محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جو ” رحمۃ للعالمین “ کے خطاب سے نوازے گئے ۔ آپ ﷺ کو یہ خطاب کیوں دیا گیا ؟ اس لئے کہ آپ ﷺ نے نفرت کو مٹانے اور محبت کو پھیلانے کا کام کیا ، محبت اور رحمت لازم و ملزوم ہیں۔ آپ ﷺ نے گناہوں سے نفرت سکھائی لیکن گنہگاروں سے محبت کا درس دیا۔ آپ ﷺ نے مرض سے دور رہنے اور مریض کے قریب ہونے کا حکم دیا۔ جس سے آپ ﷺ مجسمہ رحمت ورافت اور شفقت قرار پائے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد ۔ چونکہ تمثیل سے سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوتا ہے اور بات دل میں بیٹھ جاتی ہے اس لئے آپ ” الرحمٰن “ و ” الرحیم “ کو زیر نظر تمثیل سے سمجھو۔ امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں ” الرحمٰن “ کو تمثیل سے اس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : حضرت ابراہیم بن ادھم ؓ سے حکایت ہے کہ انہوں نے کہا : ” میں ایک شخص کے پاس مہمان تھا۔ میزبان نے کھانا تیار کرایا اور میرے سامنے لے کر رکھا تاکہ میں میزبان کے ساتھ مل کر کھاؤں جب ہم کھانے لگے تو اچانک ایک کوا آیا اور جو روٹیاں رکھی تھیں ان میں سے ایک روٹی اٹھا کر اڑ گیا۔ میں بہت حیران ہوا کہ کوا اور پوری روٹی اٹھا کے اڑتابنا۔ میں فوراً اس کے پیچھے دوڑا۔ کچھ فاصلے پر ایک ٹیلہ تھا اور ٹیلے کے پیچھے ایک شخص کو مشکیں باندھ کر ڈال دیا گیا تھا جو زندہ تھا لیکن اپنی جگہ سے ہل جل نہیں سکتا تھا کوّے نے وہ روٹی اس شخص کے بالکل قریب جا کر گرادی یا کوّے کی چونچ سے وہ روٹی عین اس شخص کے سر کے قریب گر گئی ۔ اب اس شخص کو روٹی کے کھا لینے میں کوئی شے مانع نہ تھی۔ یہ اس ” الرحمٰن “ کی رحمانیت کا تقاضا تھا جو اس طرح پورا ہوا۔ ” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم “ ۔ ” الرحمٰن “ کی رحمانیت کو سمجھنے کے لئے اور غور کرو ۔ امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں رقمطراز ہیں کہ : ” کو ّے کے بچے کی حکایت کو مشاہدہ کر کے دیکھ سکتے ہو کہ جب وہ انڈے کے چھلکے سے نکلتا ہے تو بغیر بالوں کے ایک گوشت کے ٹکڑے کی طرح ہوتا ہے چونکہ متحرک ہوتا ہے جب کوا اس کو دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر فرار ہوجاتا ہے وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ ہر آنے جانے والے کو ٹھونگے لگاتا ہے اور اضطراری حالت میں اڑتا پھرتا ہے لیکن آشیانہ کے قریب تک نہیں جاتا اور نہ ہی وہ اپنے بچے کی پرورش کرتا ہے چونکہ بچہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوتا ہے لہٰذا اسی شبہ میں مچھر ادھر ادھر سے اُڑاُڑ کر اس پر اکٹھا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہی مچھر اس کو ّے کے بچے کی غذا بنتا ہے اور یہ حال کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد بچے کے پر و بال اگ آتے ہیں اور وہ سیاہ رنگ کا ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں کچھ طاقت بھی آجاتی ہے یہاں تک کہ اس کے بالوں میں گوشت پورا چھپ جاتا ہے اس وقت اس کے ماں باپ اس کے پاس آتے ہیں اور اس کی غذا کا بندو بست سنبھال لیتے ہیں۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل عام ہے اور اس کی صفت ” الرحمٰن “ اس وقت بھی سہارا بن جاتی ہے جب کوئی اور سہارا نظر نہیں آتا۔ الحمد للہ علی ذلک ” الرحیم “ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ، اس کی وسعت کو سمجھانے کے لئے امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں ایک حدیث بیان کی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی اس صفت پر روشنی پڑتی ہے وہ کہتے ہیں : ” حدیث میں ہے کہ ایک قریب المرگ نوجوان کی زبان کلمہ شہادت ادا کرنے سے رک گئی نزع کی حالت طاری تھی لیکن جان نکلتی بھی نہیں تھی۔ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر دی۔ آپ ﷺ تشریف لائے اور اس کے قریب ہی کھڑے ہوگئے۔ مرنے والے پر کلمہ شہادت لوٹایا ۔ وہ متحرک و مضطرب ہوتا مگر اس کی زبان کام نہ کرتی ادائیگی الفاظ بالکل رک گئ۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ : کیا یہ نماز پڑھتا تھا ؟ مثبت جواب پا کر آپ ﷺ نے فرمایا کیا روزہ رکھتا تھا ؟ اس کا جواب بھی ہاں میں دیا گیا آپ ﷺ نے استفسار کہ زکوٰۃ ادا کرتا تھا ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا والدین کا نافرمان تھا ؟ لوگوں نے اس کا جواب بھی ہاں میں دیا کہ اس کی والدہ اب بھی موجود ہے لیکن وہ یہاں آنا پسند نہیں کرتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ اس کی والدہ کو لے آؤ ۔ آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس کی والدہ لائی گئی وہ ایک بوڑھی خاتون تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا یہ تیرا بیٹا ہے ؟ بڑھیا نے کہا ہاں ! میرا بیٹا ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا گناہ معاف کر دے اس نے کہا ، کہ میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ اس نے مجھے تھپڑ مارا اور میری آنکھ پھوٹ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑھیا کی بات سن کر صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ لکڑیاں لاؤ اور آگ جلائو۔ خاتون نے پوچھا کہ آگ کس لئے جلائی جا رہی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لئے تاکہ تیرے اس نافرمان بیٹے کو تیری آنکھوں کے سامنے جلایا جائے اور اس نے تیرے ساتھ جو زیادتی کی ہے اس کا بدلہ پائے۔ “ خاتون نے فوراً بیٹے کو مخاطب کیا اور کہنے لگی بیٹا میں نے تجھے معاف کیا ، کیا میں نے تجھے نو مہینے آگ کے لئے اٹھایا تھا۔ کیا میں نے دو سال تک تجھے دودھ آگ کے لئے پلایا تھا ؟ ماں کا معاف کرنا تھا کہ بیٹے کی زبان پر کلمہ توحید جاری ہوگیا۔ “ اللہ تعالیٰ کی اس صفت ” الرحیم “ نے والدہ کی اتنی سخت نفرت کو پھر ماں کی مامتا میں بدل دیا اور والدہ کی اس سختی کو جو اس نے بیٹے کی نافرمانی کی وجہ سے اختیار کی تھی رحمت میں تبدیل کردیا اور بیٹے کو بھی اس کی غلطی کا احساس دلا دیا اور مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق عطا فرما دی۔ “ گویا ” رب العٰلمین “ کے بعد ” الرحمٰن الرحیم “ کا دوبارہ ذکر کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نظام ربوبیت کے بعد تمام نظام عالم اللہ تعالیٰ کی صفت رحم کا ظہور ہے گویا یہ تمام کار گاہ عالم اور یہ سار کائنات صرف اس لئے ہی ہا تاکہ اس سے ہمیں فائدہ پہنچے اور ہماری ضرورتیں پوری ہوں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت جگہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے : وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۠0013 (الجاثیہ 45 : 13) ” اور وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان کی جملہ مخلوق اور زمین کی ساری چیزوں کو (اپنے خاص فضل و کرم سے ) تمہارے تابع کردیا (اور یہ انعامات تم کو عطا فرمائے ہیں) نقل و خرد رکھنے والے اور غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے ان میں (قدرتِ الٰہی کی ) بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ “ نہ صرف زمین و آسمان کے درمیان خلاء بلکہ زمین کے پیٹ میں بھی اس نے اپنی رحمت و نعمت کے بیشمار خزانے اپنی مخلوق کے لئے مخفی کر رکھے ہیں جو محض اس کی شفقت اور مہربانی سے زمین کی سطح پر نمودار ہوتے ہیں اور اس کی ساری مخلوق ان سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ زمین کی سطح پھلوں ، پھولوں ، غلہ ، ترکاریوں اور میوؤں سے مالا مال ہے اور پانی کی شفاف اور شیریں چشمے اس کے پیٹ سے ابل کر اس کی سطح پر بہہ رہے ہیں اور زمین کی گہرائیاں سونے چاندی اور دیگر قیمتی معدنیات سے پر ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ ہُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا 1ؕ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ 003 وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ 1۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ 004 (الرعد 13 : 3 ، 4) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کو بچھونے کی طرح پھیلا کر بچھا دیا اور اس پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح نہایت مضبوط طریقہ سے گاڑ دیا اور اس پر دریا رواں کردیئے اور اس ذات واحد نے پھلوں کے جوڑے تلخ و شیریں ذائقہ میں ، سیاہ وسفید و سرخ و زرد وغیرہ رنگت میں ، گرم ، سرد اور تر و خشک مزاج میں پیدا کئے ، اور وہی ان کی گرمی اور روشنی پر لوگوں کے آرام کے لئے رات کی تاریکی اور سردی لاتا ہے۔ غور و فکر اور سوچ و بچار سے کام لینے والوں کے لئے ان تمام چیزوں میں قدرت خداوندی کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ دیکھ لو زمین میں الگ الگ مگر قریب اور متصل خطے پائے جاتے ہیں۔ بعض نرم ہیں کہ وہاں کاشت ہو سکتی ہے بعض سخت اور پتھریلے ہیں کہ جہاں زراعت و کاشت نہیں کی جاسکتی اس زمین میں کہیں انگور کے باغات ہیں ، کہیں لہلہاتی کھیتیاں ہیں ، کہیں کھجور کے نخلستان ہیں کچھ ان میں اکہرے ہیں اور بعض دو ہرے ہیں سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے۔ مگر خشبو اور بدبو میں اور ذائقہ اور رنگ میں ہم ایک دوسرے سے جدا اور بڑھیا گھٹیا کردیتے ہیں۔ عقل و دانش رکھنے والوں کے لئے ان ساری چیزوں میں بیشمار (قدرت کی) نشانیاں موجود ہیں۔ (یعنی ان میں توحید کے دلائل موجود ہیں) ۔ “ خشکی کے علاوہ تری میں بھی اس کی رحمت عامہ کے آثار نمایاں اور ہویدا ہیں۔ مثال کے طور پر سمندروں کی سطح جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے نقل و حرکت اور آمد و رفت کے لئے اعلیٰ شاہراہ کا کام دیتی ہے اور اس کی گہرائی موتیوں اور دیگر مفید قیمتی اشیاء سے مالا مال ہے نیز دریاؤں اور سمندروں سے مچھلی کا تازہ بتازہ گوشت حاصل ہوتا ہے جو انسان کے لئے بہترین غذا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ ہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا 1ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 0014 (النحل 16 : 14) ” اور تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا ہے جس میں اپنے کھانے کے لئے مچھلی کا تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو اور اس کی تہوں میں سے غوطہ زن موتی وغیرہ نکال لاتے ہو اور جس سے تم اپنے زیورات بناتے ہو اور تم کشتیوں کو ملاحظہ کرتے ہو کہ وہ سمندروں کا سینہ چیرتی ہوئی پھرتی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ (بحری تجارت سے) منافع حاصل کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ “ ان آیات کریمات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس جہان کا ذرہ ذرہ پیدا کر کے پورے نظام عالم کو اپنے نظام ربوبیت کے تحت رکھا ہوا ہے اور اس کا نظام ربوبیت اس کے رحم و کرم اور اس کی رحمت و شفقت کے تحت چل رہا ہے۔ پورے نظام عالم کا ایک ذرہ لمحہ کے لئے بھی اس کی رحمت سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہ خشکی اور تری کی ساری نعمتیں عالم جسمانی کی تربیت اور پرورش کے لئے پیدا فرمائی ہیں اسی طرح اس کی رحمت بےپایاں نے عالم روحانی کی ترقی اور نشو ونما کے لئے بھی انتظام فرمایا اور دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابوں کے ذریعے عالم روحانی کی غذا کا بندوبست کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعثت اور اپنے آخری پیغام قرآن مجید کی تعلیم کو خصوصیت سے اپنی رحمت کے ساتھ متعلق فرمایا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ 00107 (الانبیاء 21 : 107) ” ہم نے آپ ﷺ کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ سارے عالم پر رحم کریں۔ “ الحمدللہ کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت اور دنیا کی تمام رحمتوں اور شفقتوں سے بڑھ کر رحمت اور شفقت خود نبی کریم ﷺ کی نبوت ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک طرف روح اور جسد کا تعلق باقی رکھنے کے لئے بیشمار مادی غذائیں مہیا کیں اور دوسری طرف روح کی مٰنشو ونما کے لئے اعلیٰ درجہ کی روحانی غذا یعنی نبوت احمد مجتبیٰ ﷺ کی مہیا فرمادی۔ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ0014
Top