Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلہ لوگوں کے حصے میں آئے گا
حقیقی مالک ہرچیز کا ” اللہ “ ہی ہے : 16: ” ملک “ کی ” اصل “ م ل ک ہے۔ الملک بادشاہ جو عوام پر حکمرانی کرتا ہے ” ملک “ کو اس جگہ ملک بھی پڑھا گیا ہے اور ” مالک “ بھی ۔ مفہوم دونوں طرح پڑھنے سے ایک ہی رہتا ہے۔ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ003 قیامت کے روز اسی کی بادشاہت ہوگی۔ یہ اصل میں ملک الملک فی یوم الدین ہے اور دوسری جگہ فرمایا : لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ 1ؕ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 0016 اور مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ003 قیامت کے روز کا مالک ہے۔ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ (3 : 26) ” مالک “ کا لفظ قرآن مجید میں 3 بار استعمال ہوا ہے۔ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ003 (الفاتحہ 1 : 3) ۔ 2 : (ال عمران 3 : 26) ۔ 3 : (الزخرف 43 : 77) ” ملک یوم الدین “ فاتحہ کی چوتھی آیت ہے : 17: یوم اور ” الیوم “ کی ” اصل “ ی و م ہے۔ یوم طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقاً وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے خواہ وہ زمانہ ایک دن کا ہو یا ایک سال کا ، ایک صدی کا یا ہزار سال کا یا ہزارہا سال کا۔ جمع ایام ، ایام اللہ ، اللہ کی نعمتیں۔ من اول یوم یعنی سب سے پہلادن۔ یوما اسم ظرف منصوب۔ دن یوم ، الیوم کا لفظ قرآن مجید میں 348 بار استعمال ہوا ہے۔ ” الدین “ کی اصل کیا ہے ؟ اور اس کا مطلب کیا ؟ 18: ” الدین “ کی ” اصل “ د ی ن ہے۔ دین بمعنی جزاء ، اطاعت شریعت ، بدلہ دینا ، اطاعت کرنا ، حکم ماننا۔ ” دین “ بمعنی ملت ہی ہے مگر اس کا استعمال اطاعت اور شریعت کی پابندی کے معنی میں ہوتا ہے۔ دان یدین کا مصدر ہے اور ” ادیان “ جمع ، دین۔ دام ، قرض ، ادھار ، قرض دینا ، قرض لینا۔ دان یدین کا مصدر ہے۔ دیون جمع ہے۔ ” یوم الدین “ خالصتاً اسلامی اصطلاح ہے : 19: ” یَوْمِ الدِّیْنِ “ بدلے کا دن ، (انصاف کا دن ، جزا و سزا کا دن ، قیامت کا دن) ۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا و سزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ وہ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے ، کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لئے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ لیکن قرآن کریم نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہرچیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و نتائج کے سلسلہ سے وہ باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے عالم دنیا کے اجسام میں خواص و نتائج رکھے ہیں۔ اس طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور اعمال کے انہیں خواص و نتائج کو جزا و سزا کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہی ثواب کہلاتا ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے اور اس کو عذاب کہتے ہیں۔ ثواب و عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی ؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا ایک نقشہ کھینچا ہے اور اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے اور ایک دوزخ کا۔ بہشت کے انعامات ان کے لئے جن کے اعمال بہشتی ہوں گے اور دوزخ کی عقوبتیں ان کے لئے جن کے اعمال دوزخی ہوں گے۔ وہ کہتا ہے ، تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے ممکن نہیں کہ اس میں تغیر و تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش اور جل جانا فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کے لئے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کود جائو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جائو ، تم دیکھتے ہو کہ آگ جلاتی ہے پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔ سنکھیا کھانے سے موت آتی ہے اور دودھ پینے سے طاقت و قوت بڑھتی ہے اور کونین سے بخار رک جاتا ہے جب اشیاء کی ان تمام مکافات پر تم کو تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے ؟ افسوس تم پر ! تم اپنے فیصلوں میں کتنے ناہموار ہو۔ تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی خدشہ نہیں گزرتا گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر تم سے کوئی کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوچکا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں کبھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھی قسم کے گیہوں لے کر بری قسم کے گیہوں دے گی اس لئے کہ تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالاتر ہے پھر بتلائو جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی ہے کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو ؟ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جزاء و سزا کے لئے ” الدین “ کا لفظ اختیار کیا کیونکہ مکافات عمل کا مفہوم ادا کرنے کے لئے سب سے زیادہ موزوں لفظ یہی تھا۔ پھر ” مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ003 “ کہہ کر اس مضمون کو مزید پکا کردیا کہ وہ اللہ جس کے فیصلوں میں کبھی ردو بدل نہیں ہوتا۔ جو اپنے فیصلے کو نہ خود بدلتا ہے اور نہ بدلنے دیتا ہے۔ مکافات عمل کے دن کا وہ مالک ہے۔ وہ اپنی رحمت اور ربوبیت کے باوجود عدالت بھی رکھتا ہے اور اس کے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اچھے اعمال کی جزا اچھی اور برے اعمال کی جزا بری ہو اور یہی مکافات عمل ہے۔ مزید دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور نظام ربوبیت کے تحت ہرچیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا جدھر دیکھو خشکی اور تری پر اس کی رحمت اور نعمت کی چادریں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے روح کی نشو ونما کا انتظام بھی فرمایا اور راہ ہدایت میں صراط مستقیم بتانے کے لئے کتابیں اور رسول بھیجے اور آخر میں آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرما کر نعمت اسلام کی تکمیل فرمادی۔ اس سارے نظام ربوبیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا دن ضرور ہونا چاہیے جس میں اس امر کا فیصلہ ہوسکے کہ کس نے اللہ کی ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کیا اور کس نے ناشکری کی۔ کس نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر عمل کیا اور اس کے احکام کی تعمیل کی اور کس نے اس کے ہدایت اور اس کے احکام کو ٹھکرادیا۔ ایسا دن تو دنیا میں ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ دارالعمل ہے ، اس لئے لامحالہ ایسا دن دنیا کے اختتام پر ہی ہوسکتا ہے۔ اسی دن کا نام ” یوم الدین “ ہے اور اس کو یوم آخر یا روزجزاء کہتے ہیں کیونکہ یہ دن دنیا کے ختم ہونے پر آئے گا اس میں نیک و بداعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس دن میں ہر قسم کے تمام اختیارات صرف اور صرف اللہ کے قبضے میں ہوں گے وہاں مجازی طور پر بھی کسی کو کوئی اختیار یا اقتدار حاصل نہیں ہوگا۔ اس کی وضاحت کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ اہل کتاب کے علماء سوء ان کے احبارو رہبان اور ان کے پیروں اور پادریوں کو چونکہ حق چھپانے ، حق و باطل کو ملانے ، غلط بیانی کرنے اور تورات و انجیل کی آیتوں میں لفظی اور معنوی تحریفیں اور تبدیلیاں کرنے کی عادت پڑچکی تھی اس لئے انہوں نے اپنے عوام میں بہت سے غلط عقائد پھیلا رکھے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا ان کے کرتوتوں کو ظاہر فرمایا ہے تاکہ امت محمدیہ اس سے عبرت حاصل کرے چناچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ 0075 (بقرہ 2 : 75) ” ان (یہود) میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا “۔ بنی اسرائیل کی سب سے پہلی گمراہی یہ تھی کہ نہ تو کتاب اللہ کا سچا علم ان میں باقی رہا اور نہ سچا عمل۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (رح) 0071 (آل عمران 3 : 71) ” اے اہل کتاب ! کیوں حق و باطل کے ساتھ ملا جلا کر مشتبہ کردیتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ اصلیت کیا ہے ؟ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ 1ؕ (المائدہ 5 : 42) ” یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے اور برے طریقوں سے مال کھانے میں بیباک ہوچکے ہیں۔ “ یعنی رشوت اور نذرانہ لے کر فتویٰ دیتے ہیں اور احکام شرع کی خریدو فروخت کی دکان لگا رکھی ہے۔ اہل کتاب کے پادریوں اور صوفیوں نے آخرت کے بارے میں ایک نہایت ہی غلط تصور عوام کے ذہن نشین کرا رکھا تھا۔ اپنے متعلق تو انہوں نے عوامی ذہن میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اور اللہ کے بیٹے ہیں یعنی جس طرح باپ کی صفات بیٹوں میں ہوتی ہیں اسی طرح اللہ کی صفات ہم میں موجود ہیں اس لئے آخرت میں ہمیں تو کسی قسم کا عذاب ہوگا ہی نہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے : وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ (المائدہ 5 : 18) ” اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں ، ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ “ یعنی ہم جو کچھ بھی کریں ہمارے لئے نجات ہی نجات ہے۔ عوام کو انہوں نے یقین دلا رکھا تھا کہ جنت ان کے لئے ریزرو (Reserve) ہے ان کے سوا اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى1ؕ (البقرہ 2 : 111) ” انہوں نے کہا جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا مگر وہی جو یہودی ہوگا یا عیسائی۔ “ حالانکہ ان کا یہ کہنا ان کے اپنے بیان کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو برملا جھٹلا چکے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے : وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ 1۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ 1ۙ وَّ ہُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ 1ؕ (البقرہ 1 : 113) ” یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کیا دھرا ہے ؟ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں “۔ قرآن کہتا ہے خدا کی سچائی سب کے لئے ہے اور سب کو ملی تھی لیکن سب نے سچائی سے انحراف کیا۔ سب اصل کے اعتبار سے سچے اور عمل کے اعتبار سے جھوٹے ہیں میں چاہتا ہوں اسی مشترک اور عالمگیر سچائی پر سب کو جمع کردوں اور مذہبی نزاع کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ مشترک اور عالمگیر سچائی کیا ہے ؟ خدا پرستی اور نیک عملی کا قانون ہے یہی قانون ہے جو خدا کا ٹھہرایا ہوا دین ہے اور اس کو میں ” الاسلام “ کے نام سے پکارتا ہوں۔ اہل کتاب کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کے پیر اور پادری سب حاجت روا مشکل کشا اور شفیع غالب ہیں اور قیامت کے دن ان کو عذاب سے بچالیں گے جیسا کہ قرآن مجید میں ان کے عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے : اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ 1ۚ (التوبہ 9 : 31) ” ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو پروردگار بنالیا تھا اور مریم (علیہا السلام) کے بیٹے مسیح علیہ لسلام کو بھی۔ “ سورۃ فاتحہ میں جس طرح دوسرے باطل عقیدوں کی تردید کی گئی ہے اسی طرح ” ملک یوم الدین “ سے اہل کتاب کے غلط تصور آخرت کی تردید فرمائی کہ قیامت کے دن کا مالک تو صرف اللہ ہی ہے اور اس کے ہاتھ میں سب کا حساب و کتاب اور عذاب وثواب ہے اجو ان لوگوں کے اپنے ہی کئے کا رزلٹ ہے۔ جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھ رہے ہو اور ان کو مالک و مختارا اور شفیع غالب مان رہے ہو اور جن کے بارے میں تمہارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن وہ خدا کے عذاب سے جو انہی کے کئے کا نتیجہ ہوگا چھڑا لیں گے۔ یاد رکھو قیامت کے دن ان کا کوئی زور نہیں چلے گا اور نہ ہی ان کو کسی قسم کے تصرف کا اختیار ہوگا اور نہ ہی وہ کوئی بات منوا سکیں گے کیونکہ تصرف صرف وہی کرسکتا ہے جو مالک و مختار ہو اور قیامت کے دن کا مالک صرف اور صرف اللہ ہی ہے اور سب کے نیک و بد اعمال کو جاننے والا بھی وہی ہے اسلئے وہی لوگوں کے اعمال کی جزا و سزا کا مالک ہے اس کے سوا کسی میں قدرت نہیں کہ اعمال کا حساب لے اور ہر ایک کے حسب حال اور حسب نیک و بداعمال کی جزا و سزا دے۔ یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْـًٔا 1ؕ وَ الْاَمْرُ یَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ (رح) 0019 (الانفطار 82 : 19 )
Top