Urwatul-Wusqaa - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تو ہے جس سے ہم مدد مانگتے ہیں
” ایاک “ کلمہ حصر ہے ، یعنی صرف تجھ ہی سے : 20: تجھ ہی سے تجھ ہی کو ” ایاک “۔ واحد مذکر حاضر کی ضمیر۔ منصوب منفصل۔ ” ایا “ کے ساتھ جب یاء متکلم کاف خطاب ہاء غائب اور دیگر فروع متکلم و مخاطب و غائب لاحق ہوتے ہیں تو اس وقت یہ ضمیر منصوب منفصل ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اسم ظاہر ہے جو ضمائر کی طرف مضاف ہوتا ہے مگر یہ صحیح نہیں اور اس میں مزید بحث بھی ہے۔ ایاک اور ایاکم یعنی جمع مذکر حاضر کی ضمیر منصوب منفصل قرآن مجید میں 8 بار استعمال ہوئی ہے۔ ” ایاک “ (فاتحہ 1 : 5) میں دو بار اور ایاکم 6 بار آیا ہے۔ ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 “ فاتحہ کی پانچویں آیت ہے۔ عبادت وہ تعظیم ہے جو اللہ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے : 21: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ ” نعبد “ جمع متکلم ، مضارع ، یعنی ہم عبادت کرتے ہیں یا ہم عبادت کریں گے۔ اس کی ” اصل “ ع ب د ہے۔ ” عبادۃ “ عبد یعبد کا مصدر ہے جس کے معنی پرستش کرنے یا پوجنے کے ہیں۔ امام راغب کہتے ہیں ” عبودیت “ اظہار فروتنی کا نام ہے اور ” عبادۃ “ اس سے بھی بلیغ تر ہے کیونکہ اس کے معنی انتہائی فروتنی کے ہیں اور اس کا استحقاق بھی سوائے اس ذات عالی کے جس کے افضال و انعام بیحد و نہایت ہیں اور کسی کو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ 1ؕ“ نہ عبادت کرو مگر صرف اور صرف اس کی یعنی اللہ تعالیٰ کی قاموس میں عبادت کے معنی اطاعت کے بیان کئے گئے ہیں لیکن ابن الاثیر نے نہایہ میں فرمایا ہے کہ : العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع ۔ ” لغت میں عبادت نام ہے اس اطاعت کا جو عاجزی کے ساتھ ہو “۔ قاضی شوکافی فتح القدیر میں کہتے ہیں ” وفی الشرع عبادۃ عما یجمع کمال محبۃ والخضوع الخوف “ شرع میں عبادت وہ ہے جو انتہائی محبت ، فروتنی اور خوف پر مشتمل ہو۔ اعجازالقرآن میں ہے : ” العبادۃ تذلل لغیر عن اختیار الغایۃ تعظیمہ فخرج التسخیر والسخر والقیام والانحناء لنوع تعظیم۔ ‘ ‘ عبادت اپنے اختیار سے دوسرے کی انتہائی تعظیم کی غرض سے اس کے لئے فروتنی کا نام ہے لہٰذا تسخیر کی بناء پر یا مذاق کی غرض سے ایسا کرنا نیز تعظیم رسمی کے لئے کسی کے واسطے کھڑا ہوجانا یا جھک جانا عبادت کی تعریف سے خارج ہے۔ ہاں جس کام سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے وہ بہرحال ممنوع ہے۔ جو ” استعانت “ غیر اللہ سے حرام ہے : 22: ” نستعین “ جس کی ” اصل “ ع و ن ہے۔ جمع متکلم کا صیغہ ہے یعنی ہم مدد طلب کرتے ہیں۔ استعینوا تم مدد طلب کرو مصدر۔ استعانۃ ہے جس کے معنی مدد چاہنے کے ہیں۔ استعانت اللہ تعالیٰ سے خاص ہے اور غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جب وہ موجود نہ ہو اور مدد کرنے کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو حرام ہے۔ نستعین کا لفظ ایک ہی بار یعنی یہاں سورة فاتحہ میں استعمال ہوا ہے اور 2 بار المستعان کا لفظ آیا ہے سورة یوسف کی آیت 18 ، اور المائدہ 5 کی آیت 112 میں ، فقط اسی طرح اعانۃ سورة الفرقان کی آیت 4 میں فاعینونی سورة الکہف کی آیت 95 میں اور تعاونوا کے الفاظ صرف دو بار استعمال ہوئے ہیں اور دونوں بار سورة المائدہ کی آیت 2 میں لیکن استعینو اکا لفظ تین بار استعمال ہوا ہے۔ البقرہ کی آیت 45 ، اور آیت 153 میں اور سورة الاعراف کی آیت 128 میں اور اسی طرح عوان کا لفظ بھی صرف ایک بار ” عوان بین ذلک “ سورة بقرہ کی آیت 68 میں استعمال ہوا ، اس کے علاوہ کہیں بھی قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا۔ ربّ بھی اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو اللہ ہی کے لیے استعمال کرنا چاہیے : 23: ” ربوبیت “ ” رحمت “ اور ” عدالت “ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اسلام سے پہلے جتنے مذاہب تھے سب کو اللہ تعالیٰ کی صفات ہی میں ٹھوکر لگی تھی۔ صرف اور صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے لئے لازم قرار دیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ذات میں واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ بالکل اسی طرح وہ اپنی صفات میں بھی واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ جس طرح اس کی ذات کے لیے کوئی مثال قائم نہیں کی جاسکتی بالکل اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی اس کی مثل نہیں ہوسکتا : ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لا مثل لہ ولا مثال لہ لا ضدلہ ولا ندلہ “ قرآن کریم نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہوگئے جس طرح کی لغزشیں پہلوں سے سرزد ہوچکی تھیں۔ اس نے صرف توحید ہی پر زور نہیں دیا بلکہ شرک کی راہیں بھی مسدود کردیں اور یہی اس باب میں اس کی خصوصیت ہے۔ وہ کہتا ہے : ہر طرح کی عبادت و نیاز کی مستحق صرف اور صرف خدا کی ذات ہے پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الٰہی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔ وہ کہتا ہے : اسی کی ذات ہے جو انسانوں کی پکار سنتی اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہیں۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کیا تو گویا تم نے اس خدا کی خدائی میں شریک کرلیا۔ وہ کہتا ہے : دعا و استعانت ، رکوع ، سجود ، عجز و نیاز ، اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو اللہ کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں ، کبریائیوں ، کارسازیوں اور بےنیازیوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہ صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لئے بھی پیدا کرلیا تو تم نے اسے خدا کا ” ند “ یعنی شریک ٹھہرالیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 “ کی تلقین کی گئی اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا۔ پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید اختصاص ہے۔ یعنی صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اس کے علاوہ تمام قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور ردا شراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔ سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حد بندی کا تھا۔ یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کردیا ، تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہوجائے اس بارے میں قرآن کریم نے جس طرح صاف اور قطعی لفظوں میں جابجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندہ ہونے پر زور دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ ” اَ شْهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّہُ وَاشْهِدَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ “ یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی انسانیت اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔ غور کریں کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟ صرف اس لئے کہ پیغمبر اسلام کی انسانیت اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملے کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی انسانیت کا بھی اقرار نہ کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلاف پیدا ہوئے لیکن پیغمبر اسلام کی شخصیت کے بارے میں کبھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوا ابھی رسول اللہ ﷺ کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے برسر منبر اعلان کردیا تھا : من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات ومن کان منکم یعبداللہ فان اللہ حی لا یموت (صحیح بخاری) ” جو کوئی تم میں سے محمد ﷺ کی پرستش کرتا تھا سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ نے وفات پائی اور جو کوئی تم میں سے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں “۔ اب عبادت و استعانت کے متعلق مختصر گفتگو کریں گے اس لئے کہ کہا گیا ہے کہ : الفاتحۃ سر القران وسرھا ھذہ الکلمۃ ایاک نعبدوا وایاک نستعین (ابن کثیر جلد اول ص 25) جان لینا چاہیے کہ عبادت کے مفہوم میں دو چیزیں داخل ہیں ایک غایت تذلیل یعنی انتہائی عاجزی اور ذلت دوم غایت تعظیم اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ کہ معبود کو غائبانہ تصرف اور قدرت حاصل ہے جس سے وہ نفع ونقصان پر قادر ہے کیونکہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں یہ دو صفتیں موجود ہوں۔ 1: وہ عالم الغیب ہو کائنات کا ذرہ ذرہ اس پر منکشف ہو اور زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے ظاہر و باطن ، سر وعلانیہ کو وہ اچھی طرح جانتا ہو۔ 2: وہ مالک و مختار ، متصرف فی الامور اور اقتدار اعلیٰ کا مالک ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں اپنے لئے استحقاق عبادت و پکار کا ذکر فرمایا ہے وہاں اپنی انہی دو صفتوں کو اس کی علت قرار دیا ہے اور جہاں کہیں غیر اللہ سے عبادت و پکار کی نفی کی ہے وہاں غیر سے دونوں صفتوں کی نفی فرمائی ہے البتہ کہیں دونوں صفتوں کی نفی ہے اور کہیں صرف ایک کی نفی ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے : وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ 1ؕ مَا کَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ 1ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ 0068 وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ 0069 وَ ہُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ 1ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِٞ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ 0070 (القصص 28 : 67 تا 70) ” اور آپ کا پروردگار قادر مطلق ہستی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہے اپنی رسالت اور پیغام رسانی کے لئے منتخب کرلے وہ کسی رائے کا محتاج نہیں اور نہ ہی یہ کام لوگوں کے کرنے کا ہے کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ کس میں کیا صلاحیت ہے اور وہ پاک و منز ّہ ہے ان کے شرک سے جو وہ اس کی صفات و اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور آپ کا پروردگار جانتا ہے ان کے سینوں کے مخفی ارادوں کو اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے رازوں کو اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اس سے بھی باخبر ہے اور وہ ان کے اعمال کے مطابق جزا دے گا وہی اللہ ہے جس کے سوا عبادت و بندگی کے لائق کوئی نہیں اور نہ کوئی اس کا استحقاق ہی رکھتا ہے ۔ دنیا و آخرت میں حمد و ستائش صرف اسی کے لئے ہے اور اس کی حکومت ہوگی اور اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى 006 وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى007 اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ 1ؕ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى 008 (طہ 20 : 6 تا 8) ” جو کچھ زمین و آسمانوں اور ان کے درمیان میں ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے موجود ہے سب کا مالک وہی ہے (اور اسی کا ان پر تصرف چلتا ہے) ۔ اللہ نہا خانہ قلب میں چھپی بات کو جسے تم آہستہ سے کہو یا پکار کر ، خوب جانتا ہے بلکہ اسے تو مخفی تربات کا بھی علم ہے وہ اللہ ہی کی ذات اقدس ہے اس کے سوا عبادت کے کوئی لائق نہیں۔ اس کے بہترین نام ہیں (اور بہترین صفات کا وہ مالک ہے) ۔ “ ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے : وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَیْهِ 1ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (رح) 00123 (ہود 11 : 123) ” اور یاد رکھو اللہ ہی کے لئے آسمان و زمین کی چھپی باتوں کا علم ہے اور سارے کام اسی کے آگے رجوع ہوتے ہیں پس اس کی بندگی میں لگا رہ اور اسی پر بھروسہ کر ۔ تیرا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو لوگ کر رہے ہیں “ ان آیات کے علاوہ سینکڑوں آیات کریمات میں یہ مضمون پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ان تمام آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی ان دونوں صفتوں کا ذکر فرمایا کہ وہ متصرف و مختار ہے زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کے قبضہ میں ہے۔ زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے تمام معاملات اور سارے کار خانہ عالم کی تدبیر اور پورا نظام عالم اسی کے زیر اقتدار ہے اور زمین و آسمان کے تمام غیوب کو جاننے والا بھی وہی ہے اور مذکورہ تینوں جگہوں میں دونوں صفتیں بیان کرنے کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ جب عالم الغیب اور متصرف و مختار اللہ ہے تو معبود بننے اور پکارے جانے کے لائق بھی صرف اللہ ہی ہے۔ تمام صفات کارسازی بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو ، اسی کو پکارو اسی کے آگے جھکو اور جو کچھ مانگو اسی سے مانگو۔ چنانچہ علامہ ابن القیم نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے : العبادۃ عبادۃ عن الا عتقاد والشعو ربان لل معبود سلطۃ غیبیۃ یقدربھا علی النفع والضرر فکل ثناء ودعاء و تعظیم بصا حب ھذا الا عتقاد والشعور فھی عبادۃ ۔ (مدارج السا لکین ج اول ص 40) ” یعنی عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ نفع و نقصان پر قادر ہے اس لئے ہر اچھی تعریف ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد و شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے “۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر وہ قول اور فعل ، دعا اور پکار ، ثناء اور تعظیم ، رکوع اور سجود ، قیام اور قعود جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ، عبادت غیر اللہ کی شرک ہے۔ اسی طرح ” استعانت “ یعنی مدد طلب کرنا بھی صرف اسی سے خاص ہے نہ کسی اور سے کیوں ؟ اس لئے کہ حاجات و مشکلات میں پکارنا اور مدد مانگنا چونکہ عبادت کی سب سے بڑی اور اہم شاخ ہے اس لئے عبادت کے ساتھ خصوصیت سے اس کا ذکر فرمایا۔ ہر آدمی جو کسی معبود کی عبادت کرتا ہے دنیوی زندگی کے اعتبار سے اس کی عبادت کا مقصد اور لب لباب یہی ہوتا ہے کہ اس کی تمام حاجتیں پوری ہوں اور اس کی تمام مشکلیں آسان ہوجائیں۔ اس لئے ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دعاء و پکار عبادت کا مغز اور لب لباب ہے۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے : الدعاء مخ العبادۃ اور دوسری جگہ ہے : الدعاء ہو العبادۃ (ابو دائود ج اول ص 28 ، ترمذی جلد اول ص 173 ، تفسیر ابن جریر 24 ص 46) ” یعنی پکارنا بھی اصل عبادت ہے۔ قرآن مجید میں بھی لفظ عبادت بمعنی دعاء اور پکار آیا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ 1ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ (رح) 0060 (مومن 40 : 60) ” اے پیغمبر ﷺ ! آپ ﷺ لوگوں سے کہہ دیں کہ تمہارے پروردگار کا حکم ہے کہ مجھ سے ہی دعائیں کریں میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا (اور انہیں یہ بھی بتا دیں کہ) جو لوگ کبر و نخوت اور گھمنڈ میں اگر میری عبادت یعنی پکار سے انحراف کریں گے انہیں قیامت کے روز گھسیٹ کر اور ذلیل و خوار کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ “ اس آیت کریمہ میں پہلے اللہ نے اپنی پکار کا حکم فرمایا ہے پھر پکار کو لفظ عبادت سے تعبیر فرما کر واضح کردیا ہے کہ پکار بھی عبادت ہے اور اسی طرح نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں ” عبادتی “ سے مراد ” دعائی “ لے کر مہر تصدیق ثبت کر کے اس بات کی مزید وضاحت فرما دی ہے۔ (تفسیر ابن جریر ج 24 ص 47 ، ابن کثیرج 4 ص 85) قرآن مجید میں عبادت و استعانت کے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور خصوصاً سورة زمر اور حوامیم کا مرکزی مقصد ہی یہ ہے کہ عبادت و استعانت صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے ۔ فادعوہ مخلصین لہ الدین (40 : 65) جس کی پوری تشریح ان سورتوں میں موجود ہے۔ یعنی سورة فاتحہ میں جس دعویٰ کو ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 “ سے بیان کیا گیا ہے اس کی تفصیل اگرچہ قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہے تاہم حوامیم کا مرکزی مضمون ہی یہ ہے اس لئے تشنہ کاموں کو ان سورتوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے تاکہ مذکورہ دعویٰ کے روشن دلائل کا مشاہدہ کرسکیں۔ عبادت اور استعانت کا مفہوم ، عبادت اور استعانت کا آپس میں تعلق ، عبات اور استعانت دونوں میں ایک جیسا حصر ، عبادت اور استعانت میں غیر اللہ کی نفی یعنی نعبد ولا نعبد غیرک (ابن عباس) کو رالضمیر للتنصیص علی انہ المستعا بہ لا غیر (بیضاوی) یعنی ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور مدد تجھ ہی سے طلب کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی اور سے مدد طلب نہیں کرتے ، یہ اور ان جیسی آیات پر جہلاء کی طرف سے ایک شبہ وارد کیا جاتا ہے جس کا ازالہ ضروری ہے شبہ کیا ہے ؟ بیان یہ ہوا ہے کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا ، غیر اللہ کو نفع و نقصان کا مالک تصور کرنا اور غیر اللہ کو پکارنا شرک ہے حالانکہ ہمہ وقت ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مدد مانگتا ہے ، اور اسے اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے اور اس سے مدد کی درخواست کرتا ہے یہ باہمی مدد مانگنے کا ثبوت بھی خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔ کیا ہم سب مشرک ہیں ؟ کیا قرآن مجید میں متضاد احکام موجود ہیں ؟ قرآن کا کونسا بیان صحیح ہے ؟ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کی شرارت بھانپ لی اور سمجھ لیا کہ وہ کفر پر اڑ گئے ہیں تو اپنی مدد کے لئے پکارا ، چناچہ قرآن مجید میں ہے : فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ 1ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ (آل عمران 3 : 52) ” جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں (اور وہ قتل کے در پے ہیں) تو ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں میرا حامی اور مددگار کون ہے ؟ حواری بولے کہ ہم اللہ کے دین کے بارے میں آپ کے مددگار ہیں “۔ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کو روکنے کے لئے دیوار بتاتے وقت لوگوں سے کہا : ” فَاَعِیْنُوْنِیْ۠ بِقُوَّةٍ “ (الکہف 18 : 41) سب مل کر قوم کے ساتھ میری مدد کرو ، مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا : ” وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ 1ؕ “ (البقرہ : 45) صلوٰۃ اور صبر سے استعانت طلب کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ “ (آل عمران 3 : 153) اور رسول اللہ ﷺ پیچھے سے تم کو پکار رہے تھے۔ یہ اور ان جیسی آیات کا مفہوم کیا ہوا ؟ قرآن مجید میں جہاں یہود کی بہت سی شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی شرارت یہ بھی بیان کی گئی ہے ” یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ 1ۚ“ (المائدہ 5 : 41) ” یہ تورات کے کلموں کے باوجودیکہ ان کا صحیح محل ثابت ہوچکا ہے۔ صحیح محل سے پھیر دیتے ہیں “۔ یعنی ان کا مطلب کچھ سے کچھ بنادیتے ہیں یہاں بھی وہی ہاتھ دکھایا گیا ہے اور صرف شرارتاً بات کہی گئی ہے ورنہ حقیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ زیر نظر آیت کریمہ ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 “ کو ایک ساتھ ذکر کرنے کا مطلب و مفہوم ہی یہ تھا کہ اس استعانت کی بات ہے جو استعانت عبادت ہے اور یہ خالصۃً اللہ ہی سے ہے غیر اللہ سے نہیں۔ پھر اس کی مزید وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ایک استعانت ماتحت الاسباب ہے یعنی ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگی جائے اور یہ امداد ہے جو تمام انسانوں کو روز مرہ زندگی میں ایک دوسرے سے حاصل ہوتی رہتی ہے اور ایک حد تک حاصل ہوتی ہی رہنی چاہیے کیونکہ یہ ایک دوسرے سے تعاون ہے جو نیکی کے ہر کام میں جاری رہنا چاہیے اور اس کا حکم تو خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى 1۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ 1۪ (مائدہ 5 : 2) ” نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو گناہ کے کام میں کسی سے تعاون نہ کرو “۔ شبہہ میں جس استعانت کا ذکر کیا گیا ہے اگر وہ عبادت ہوتی تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ العیاذ باللہ عوام الناس ، اولیاء اللہ اور انبیاء (علیہم السلام) کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے مدد مانگی اور ذوالقرنین نے اپنی قوم سے ، حالانکہ جن لوگوں کی طرف سے شبہ پیش ہوا ان کا دعویٰ یہ ہے جسے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیا کرام حاجت روا اور مشکل کشا ہیں معاذ اللہ۔ ” مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ 1ؕ“ کہہ کر عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ہے جو اللہ کے دین کے لئے میری امداد کرے ؟ مطلب بالکل واضح ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے دین کے لئے تعاون کے لئے فرمایا تو حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے دین کے مدگار ہیں۔ یہ معاملہ تحت الاسباب تھا کیونکہ حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس موجود تھے ان کی بات سن رہے تھے کہیں غائب نہ تھے۔ انہوں نے بالمشافہ حواریوں سے اسباب عادیہ کے تحت امداد طلب کی اور بالکل اسی طرح ذوالقرنین نے بھی یاجوج ماجوج کو روکنے کے لئے دیوار بناتے وقت لوگوں سے جو کہا تھا : ” فَاَعِیْنُوْنِیْ۠ بِقُوَّةٍ “ ” تم قوت بازو یعنی کام کام سے میری مدد کرو “۔ یہ مدد بھی ظاہری اسباب کے تحت تھی۔ نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو غائبانہ پکارا اور نہ ان سے مافوق الاسباب مدد مانگی اور نہ ہی ذوالقرنین نے اپنی قوم سے ایسا کیا۔ جس طرح ظاہری اسباب کے تحت مدد و امداد جائز ہے اسی طرح اسباب عادیہ کے تحت پکار بھی جائز ہے یعنی جو آدمی سامنے موجود ہو اسے پکار کر یعنی اے فلاں کہہ کر کوئی ایسا کام کرنے کا کہا جائے جو اسباب عادیہ کے تحت اس کی قدرت میں ہو مثلاً اسے کہا جائے مجھے پانی پلا دو یا بازار سے سودا سلف لا دو تو یہ تعاون علی الخیر ہوا۔ دیکھو جنگ احد میں وقتی افراتفری کی بنا پر جب صحابہ کرام ؓ کی کچھ تعداد آپ ﷺ سے علیحدہ ہوگئی تو آپ ﷺ نے ان کو واپس بلالیا : وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ (آل عمران 3 : 152) ” اور رسول اللہ ﷺ پیچھے سے تم کو بلا رہے تھے “۔ نبی کریم ﷺ کا یہ بلانا اور پکارنا اسباب ظاہری کے تحت تھا اور آواز ان کو دی جارہی تھی جو میدان احد میں آپ ﷺ کی آواز سن رہے تھے یہ پکار ماتحت الاسباب تھی ، نعوذ باللہ حضور ﷺ ان صحابہ کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہیں پکار رہے تھے۔ فافہم فتدبر اب خود ہی غور کرلو کہ ایک دوسرے سے مدد طلب کرے جبکہ ایک دوسرے کے سامنے ہو ، ایک دوسرے کی بات کو سن رہا ہو ، ایک دوسرے سے صرف اس کام میں مدد طلب کرے جس میں وہ اس کی مدد کرسکتا ہو تو یہ شریک کیونکر ہوا اور اس طرح ایک دوسرے کی مدد کرنے والے شریک کیسے ہوگئے ؟ ” وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى “ کا حکم دے کر قرآن مجید نے کس حکم خداوندی کے متضاد حکم دیا۔ قرآن مجید کے وہ کون سے دو بیان ہیں جو آپس میں متضاد ہیں تاکہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کونسا حکم صحیح ہے اور کونسا صحیح نہیں ؟ خوب سمجھ لو کہ یہ شبہ ڈالنے والے نے دھوکہ دیا ، فریب کیا ، مکاری کی ، یہودیوں کا سافعل کیا ، دراصل یہ کوئی شبہ نہیں تھا خواہ مخواہ کی ایک مداخلت تھی ، فریب نظر تھا جو کافور ہوگیا۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُؕ004 کے الفاظ ” نَعْبُدُ “ اور ” نَسْتَعِیْنُ “ جمع کا صیغہ ہے جو قابل لحاظ ہے کہ دعا تنہا ایک ایک فرد نہیں کر رہا۔ ایک ایک فرد کی زبان سے ساری ملت اسلامیہ مل کر اجتماعی رنگ میں کررہی ہے اور یہ اجتماعیت کی اہمیت قرآن و حدیث دونوں کی دعاؤں میں کثرت سے جلوہ گر ہے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا 1ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ 00127
Top