Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 26
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا١ۚ لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِعْ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ١٘ وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا
قُلِ
: آپ کہ دیں
اللّٰهُ
: اللہ
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِمَا لَبِثُوْا
: کتنی مدت وہ ٹھہرے
لَهٗ
: اسی کو
غَيْبُ
: غیب
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَبْصِرْ بِهٖ
: کیا وہ دیکھتا ہے
وَاَسْمِعْ
: اور کیا وہ سنتا ہے
مَا لَهُمْ
: نہیں ہے ان کے لئے
مِّنْ دُوْنِهٖ
: اس کے سوا
مِنْ وَّلِيٍّ
: کوئی مددگار
وَّلَا يُشْرِكُ
: اور شریک نہیں کرتا
فِيْ حُكْمِهٖٓ
: اپنے حکم میں
اَحَدًا
: کسی کو
آپ ﷺ کہہ دیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت تک رہے وہ آسمان و زمین کی پوشیدہ باتیں جاننے والا ہے وہ بڑا ہی دیکھنے اور سننے والا ہے اس کے سوا لوگوں کا کوئی کارساز نہیں نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے
اصحاب کہف کی تعداد میں بحثیں ہوئیں تو ان کے غار میں رہنے کی مدت بھی زیر بحث رہی : 28۔ لوگوں نے جس طرح اصحاب کہف کی تعداد میں بیکار بحثیں کیں جن کا حاصل کچھ بھی نہیں تھا اسی طرح ان کی غار میں رہنے کی مدت بھی زیر بحث رہی ہے پھر کسی نے ان کی غار کی نیند کو تین سو سال تک نیند میں رہنا بیان کیا اور کسی نے 309 سال کا ذکر کیا ، پھر ان دونوں تعدادوں میں جو فرق ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ دراصل تین سو سال شمسی سال کے لحاظ سے تھے اور 9 سال قمری سالوں کی گنتی سے زیادہ ہوجاتے ہیں اس لئے ایک مدت شمسی لحاظ سے بیان کی گئی ہے اور دوسری مدت قمری لحاظ سے اور دونوں کا ایک ہی ساتھ ذکر بھی کردیا ہے ، حالانکہ یہ بھی ایک لحاظ سے بیان کی گئی ہے اور دوسری مدت قمری لحاظ سے اور دونوں کا ایک ہی ساتھ ذکر بھی کردیا ہے حالانکہ یہ بھی ایک تکا ہی ہے جیسا کہ لوگوں نے پہلی باتوں میں لگائے مدت میں بھی لگا دیئے تاکہ کوئی بات متفق علیہ نہ رہ جائے حالانکہ قرآن کریم بار بار اور ساتھ ساتھ یہ بات کہتا جاتا ہے کہ یہ بات اس کی بالکل لغو تھی اور لغویات کے پیچھے پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اے پیغمبر اسلام ! آپ برملا اعلان کردیں کہ ان کی گنتی اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور ان کی مدت غار بھی علم الہی میں محفوظ ہے ہمیں چونکہ اس مدت کی ضرورت نہ تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو واضح نہیں فرمایا ۔ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ساری پوشیدہ چیزوں کو اچھی طرح جانتا ہے ، غیب کی باتوں کو جاننا اس کی صفت خاص ہے کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیب کی باتوں کو زیر بحث لائے اس لئے کہ غیب جاننے میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں جس طرح عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اس آیت پر اصحاب کہف کا بیان ختم ہوا اب اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ دیا جاتا ہے تاکہ باز مزید واضح ہوجائے ۔ اصحاب کہف والرقیم کا مختصر ذکر : سیرت ابن اسحاق میں بروایت ابن عباس ؓ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ قریش نے مشورہ کیا کہ محمد ﷺ کا معاملہ بہت سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے اس لئے کوئی ایسا یقینی فیصلہ ہونا چاہئے کہ یہ صادق ہیں یا نہیں تاکہ ہم ان کے متعلق اپنی آخری رائے پر عمل کرسکیں اور بہتر یہ ہے کہ اس مسئلہ کو یہود سے حل کروایا جائے کیونکہ وہ خود کو اہل کتاب کہتے ہیں اور اس قسم کے معاملات میں صاحب بصیرت ہیں ۔ قریش نے اس غرض سے نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط پر مشتمل ایک وفد علمائے یہود کے پاس بھیجا ، علمائے یہود نے ان سے کہا کہ تم ان سے تین باتیں دریافت کرو اگر وہ صحیح صحیح جواب دیں تو بلاشبہ اللہ کے سچے رسول ہیں تم کو ہرگز ان کی مخالفت نہ کرنی چاہئے اور اگر وہ جواب نہ بتا سکیں تو تم کو اختیار ہے جو چاہو ان کے ساتھ کرو وہ تین سوال یہ ہیں : 1۔ ذوالقرنین کا واقعہ کیا ہے ؟ 2۔ اصحاب کہف کون تھے ؟ 3۔ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ وفد نے مکہ جا کر صنادید قریش سے صورت حال کہہ سنائی اور قریش نے اس بات کو بہت پسند کیا اور آپ کے سامنے تینوں سوالات رکھ دیئے ، آپ نے فرمایا کہ اس کا جواب وحی آنے پر دوں گا چناچہ جب وحی الہی کے ذریعہ آپ کو خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے تنواں باتوں یا تینوں سوالوں کے جواب دے دیئے اور سورة کہف میں ان تینوں سوالوں کا جواب مذکور ہے ، اس روایت کے بعد ایک اختلاف تو یہ شروع ہوا کہ آیا یہ مشورہ علمائے یہود سے ہوا تھا یا علمائے نصاری سے پھر اس پر تفاسیر میں بہت لے دے کی گئی لیکن ہم اس کو ذکر نہیں کرنا چاہتے جس کو تحقیق کی ضرورت ہو وہ تفاسیر کا مطالعہ کرے خصوصا پرانی تفاسیر کا یا سیر کی کتابوں کا ۔ تاریخ میں چونکہ مسیحی مذہب کی ابتدائی قرنوں میں متعدد واقعات ایسے گزرے ہیں کہ راسخ الاعتقاد عیسائیوں نے مخالفین کے ظلم وجور سے عاجز آکر پہاڑوں کی غاروں میں پناہ لے لی اور آبادیوں کنارہ کش ہوگئے یہاں تک کہ وہیں وفات پا گئے اس لئے یہاں سے یہ بحث پیدا ہوگئی کہ اس سوال میں جس میں کہف والوں کا ذکر ہے وہ کہاں پیش آیا پھر اس کے متعلق روایات کا ایک انبار ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف رائیں پیش کی ہیں ۔ لیکن قرآن کریم نے چونکہ کہف کے ساتھ (الرقیم) کا لفظ بھی استعمال کیا ہے اس لئے علمائے اسلام میں اس لفظ میں بہت زیادہ بحث کی گئی ہے کسی نے کہا یہ اس شہر کا نام ہے جس سے یہ لوگ بھاگے تھے ، بعض نے اس غار کا نام (الرقیم) لکھا اور بعض نے یہ ثابت کیا کہ (الرقیم) رقم سے ہے اور اس غار پر کوئی کتبہ لگایا گیا ہوگا جس پر ان لوگوں کے نام اور ان کی دوسری معلومات درج تھیں ، دریں وجہ ان کو (الرقیم) کہا گیا ہے ۔ پھر محققین نے تحقیق کی تو یہ بات بتائی گئی کہ (الرقیم) وہی ہے جس کو تورات نے (زاقیم) نقل کیا ہے اور یہ فی الحقیقت ایک شہر ہیا کا نام تھا جس کو بعد میں لوگوں نے ” پٹیرا “ اور عربوں نے ” بطرا “ کے نام سے یاد کیا ہے ، چناچہ عالمگیر جنگ کے بعد جب آثار قدیمہ کے نئے نئے گوشے کھلے تو ان میں ایک گوشہ شہر پٹیرا کا بھی ہے اس لئے اس انکشاف نے ایک نیا دروازہ کھول دیا اور پھر اس دروازہ سے داخل ہونے والوں نے جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھ کر دیکھا جہاں سے دو متوازی سلسلہ کوہ شروع ہوجاتے ہیں اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنا شروع ہوجاتی ہے تو انہوں نے وہ علاقہ دریافت کرلیا جو نبطی قبائل کا علاقہ بتایا جاتا ہے اور اس جگہ ایک پہاڑی سطح پر (راقیم) نامی شہر آباد تھا ، انہوں نے معلوم کیا کہ دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کرلیا تو یہاں کے دوسرے شہروں کی طرف راقیم نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کرلی اور یہی زمانہ ہے جب پیٹرا کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیڑوں کی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچی ۔ 640 عیسوی میں یہ علاقہ جب مسلمانوں کے تسلط میں آیا تو اس وقت (راقیم) کا نام لوگوں کی زبانوں پر نہیں رہا تھا بلکہ نیا نام پیٹرا ہی جاری تھا جس کو مسلم فاتحین نے ” بطرا “ کہا ۔ جنگ عظیم کے بعد جب اس علاقہ کی از سرنواثری پیمائش کی گئی تو نئی نئی باتیں روشنی میں آئیں ان میں اس علاقہ کے عجیب و غریب غار بھی ہیں جو دور دور تک چلے گئے ہیں اور اندر سے بہت وسیع ہیں اور اپنی نوعیت میں ایسے بھی ہیں جن میں دن کی روشنی اور خصوصا دھوپ ہرگز نہیں پہنچ سکتی اور پھر ایک غار ایسا بھی ملا جس کے دہانہ کے پاس قدیم عمارت کے آثار پائے جاتے ہیں اور بیشمار ستونوں کی کرسیاں بھی دیکھی گئیں اور خیال کیا گیا کہ یہ کوئی معبد ہوگا جو اس جگہ تعمیر کیا گیا تھا اس انکشاف سے یہ فرض کرلیا گیا کہ یقینا وہ واقعہ جس کو اصحاب کہف کا واقعہ کہا گیا ہے اس جگہ پیش آیا تھا اور قرآن کریم نے صاف صاف لفظ میں اس کا نام (الراقیم) بنادیا اور پھر جب اس نام کا ایک شہر موجود تھا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ (رقیم) کے معنی میں تکلفات کئے جائیں اور بغیر کسی بنیاد کے اسے کتبہ پر محمول کیا جائے ۔ ابن اسحاق کچھ کہیں لیکن قرآن کریم کی زبان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی عربوں میں شہرت تھی اور لوگ اس معاملہ میں بحثیں کیا کرتے تھے اور اسے نہایت ہی عجیب و غریب بات تصور کرتے تھے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ عربوں کے وسائل معلوم اس وقت محدود تھے اس لئے بہت کم امکان ہے کہ دور دراز کی باتیں ان کے علم میں ہی آتی ہوں پس یا یقینا یہ بات ان کے قرب و جوار ہی میں تھی جو لوگوں کی زبانی انہوں نے سنی تھی اور جب اس کو پیٹرا کا واقعہ قرار دیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کیونکہ یہ مقام عرب سے کوئی زیادہ دور نہیں ہے بلکہ عرب کی حدود کے ساتھ ستر میل دور واقع ہے اور دوسرے یہ کہ نبطیوں کی وہاں آبادی تھی اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے جاتے رہتے تھے اور نبطیوں میں اس واقعہ کی یقینا شہرت ہوگی اور انہیں سے عربوں نے سنا ہوگا ۔ اس طرح خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہر سال شام جایا کرتے تھے اور سفر کا ذریعہ بھی وہی شاہراہ تھی جو رومیوں نے ساحل خلیج سے لے کر ساحل ‘ رمور تک تعمیر کردی تھی پہلی جنگ عظیم کے بعد اس شاہراہ کا سراغ لگایا گیا تھا اور اب یہ اس خط پر دوبارہ تعمیر کردی گئی ہے اسی شاہراہ پر ترسیس آباد تھا جہاں سے ماین کے جہاز ہندوستان کو آیا کرتے تھے اور بحراحمر کے تجارتی بیڑوں کا بھی یہی مرکز تھا ، بہرحال پیڑا اس شاہراہ پر واقعہ ہے اور اس نواح کی سب سے پہلی تجارتی منڈی ہے لہذا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی تفصیلات عربوں کی زبان پر خاص وعام طریقہ سے پائی جاتی تھیں ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت نبطیوں کے قبضہ میں تھا اور یہ نبطی کون تھے ؟ اس بحث نے طول پکڑا تو لمبی ہوتی چلی گئی پھر محققین نے اس کے متعلق تحریر کیا کہ یہ دراصل اسمعیل عربوں ہی کی ایک شاخ کے لوگ تھے اور اسمعیل (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے نابت یا نبط کی اولاد تھے ، نبطیوں کا زمانہ حکومت 700 ق م سے شروع ہو کر 106 ق م تک رہا اور دوریں نبطیوں نے شرک میں مبتلا ہو کر بتوں کی پرستش شروع کردی اور جب رومیوں نے اس علاقہ کو فتح کیا تھا اس وقت یہ ساری قوم شرک کی بیماری میں لت پت تھی ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب زکریا (علیہ السلام) ‘ یحییٰ (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) یکے بعد دیگرے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے لیکن ان مشرک قوموں نے رومیوں کی مدد سے ان پر بہت زیادتیاں کیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد آپ کے ماننے والوں کو مزید مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو شہروں سے بھاگ کر پہاڑوں کی غاروں میں پناہ لینی پڑتی رہی ۔ اسی دور میں یعنی مسیح (علیہ السلام) کے انتقال کے سویا اس سے زیادہ سالوں کے بعد یہ واقعہ اصحاب کہف کا پیش آیا ۔ یہ چند نفوس تھے جنہوں نے عیسائیت کو قبول کیا تھا اور بت پرستی سے بیزار تھے انہوں نے جب تبلیغ کا کام شروع کیا تو لوگوں نے ان کی بہت مخالفت کی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی علاقہ کے کھاتے پیتے لوگ تھے اس لئے ان کی مزاحمت اتنی آسان نہیں تھی اور ان کی شکایت جلد ہی حکومت وقت تک پہنچائی گئی اور لوگوں نے اپیف مذہبی روش کے خلاف ان کو برداشت نہ کرتے ہوئے حکومت کو اپیل کی کہ ان کو تبلیغ سے روکا جائے ورنہ ہمارے لوگوں کو یہ بدمذہب بنا دیں گے کیونکہ بروں کو کبھی اچھائی پسند نہیں آتی حکومت نے بھی سلجھے ہوئے انداز سے ان کو طلب کیا ‘ ان کی باتیں سنیں اور ان کی دلیری اور بیباکی کے باعث فورا عمل درآمد کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان کو سمجھا بجھا کر سوچنے سمجھنے کی مہلت دی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہلت دراصل حکومت وقت نے ان کے معاملہ میں خود حاصل کی تھی تاکہ اس تحریک کا نام وشان مٹانے کے لئے کوئی سخت سے سخت ترین قدم اٹھایا جائے اور قدم اٹھانے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرلیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے گھر والوں سے رابطہ کیا گیا ہوگا اور خاندان کو آگاہ کردیا ہوگا کہ اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو ہم کیا کریں گے اور صحیح صورتحال کا ان کو بھی علم ہوچکا ہوگا اور اس طرح ان کے خاندانوں اور گھر والوں نے بھی ان سے رابطہ کرکے صورتحال سے ان کو آگاہ کیا ہوگا تاکہ وہ اس مشن سے باز آجائیں لیکن جب انہوں نے آپس میں مل کر مشورہ کیا تو ان کو اس علاقہ سے ہجرت کرکے کسی غار میں پناہ گزیں ہوجانے کا راستہ پسند آیا ہوگا اس لئے انہوں نے وہی کیا جس پر ان کے دلوں کو اطمینان ہوا اور وہ یہی تھا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر اور اشیائے ضرورت میں سے جو کچھ لے جاسکتے تھے ساتھ لے کر کسی طے شدہ غار کی طرف چل دیئے اور وہیں انہوں نے مستقل رہائش اختیار کرلی اور شہر سے رابطہ ختم کردیا ، مخالفت کے باعث یقینا لوگوں نے یا حکومت نے ان کی تلاش کی ہوگی لیکن وہ کسی آبادی میں تھے ہی کب کہ کہیں سے مل جاتے آخر کار وہ یہ سمجھ کر کہ کہیں مرکھپ گئے چپ ہوگئے لیکن جو تحریک ایک بار چل چکی ہو اور پھر خلوص نیت کے ساتھ چلائی بھی گئی ہو تو کیا وہ کسی کے مرنے سے ختم ہوجاتی ہے نہیں بلکہ ایسے حالات میں وہ پہلے سے زیادہ پنپنے لگتی ہے اصحاب کہف کے نکلنے کی دیر ہوئی کہ کتنے ہی لوگ مزید پیدا ہوگئے ، اور انہوں نے توحید کا علم کھڑا کردیا اور آہستہ آہستہ حکومت وقت بھی بدل گئی اور آنے والی حکومت نے ان لوگوں کی حیثیت کو بھی تسلیم کرلیا اس طرح عیسائیت کو پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا۔ ایک مدت تک وہ غار میں رہے اگرچہ اس مدت کا ذکر قرآن کریم نے نہیں کیا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کا واضح ثبوت ملتا ہے تاہم لوگوں کی افواہوں میں وہ تین سو سال کی مدت قرار دی گئی اور اس سے کم وپیش کی روایات بھی پائی جاتی ہیں حالانکہ یہ مدت جو بیان کی گئی اس میں بیسیوں کا نہیں بلکہ سینکڑوں کا مبالغہ پایا جاتا ہے ، مختصر یہ کہ لوگوں نے اصل مقصد کی بات تو بالکل بلا دی کہ ” ان لوگوں نے آبادی سے نکل کا غار کی زندگی کو کیوں ترجیح دی ؟ “ اور اس طرح کی بحثیں پیدا ہوگئیں کہ وہ کہ وہ کتنے لوگ تھے ؟ پھر کسی نے تین کا نام لیا اور کسی نے چار ‘ پانچ اور چھ کا اور ساتواں ان کا کتا بیان کیا اور کسی نے ان کی تعداد سات بتائی اور آٹھواں ان کا کتا قرار دیا ، قرآن کریم کے بیان کرنے کا ماحصل یہ تھا کہ لوگوں نے وہ بحثیں شروع کردی جن کے شروع کردینے کا کچھ بھی مقصد نہیں تھا اور پھر روز بروز انہیں میں طول پکڑتے گئے لیکن آج ہمیں تعجب ہے کہ قرآن کریم نے جس بات سے منع کیا تھا اور لوگوں کی جو کمزوری بتائی تھی آج وہی کمزوری بدستور موجود ہے اور ہمارے مفسریں نے انہی روایتوں کو ان آیات کی تفسیر میں لا کر بیان کردیا ہے جو اس وقت لوگوں میں چکر لگاتی نظر آتی تھیں ، اور جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے وہی روایتا اور سندا بیان کی جاتی ہیں علمائے اسلام نے تفاسیر میں ان کو اس طرح درج کردیا ہے اور آج ہم مسلمانوں کے ہاں بھی وہ بالکل اسی طرح گردش کرتی ہیں جیسے اس وقت یہودیوں ‘ عیسائیوں اور عربوں کے ہاں گردش کرتی تھیں ، اس وقت ہمارے ہاں جو بہت سلجھے ہوئے اور محقق لوگ سمجھے جاتے ہیں وہ اس واقعہ کو اس طرح نقل کرتے ہیں کہ : ” اسماعیلی عربوں کے مذہب سے متعلق تاریخ کے صفحات یہ شہادت دیتے ہیں کہ ان میں گو کچھ عرصہ باپ دادا کا دین حق یعنی ” ملت ابراہیم “ باقی رہا مگر آہستہ آہستہ مصر وشام اور عراق کے صنم پرستوں کے تعلقات نے عمر بن لحی کے ذریعہ ان میں بت پرستی اور ستارہ پرستی کی داغ بیل ڈال دی اور کچھ عرصہ کے بعد ان عربوں کو شرک پرستی میں ایسا یدطولی حاصل ہوگیا کہ وہ دوسروں کے لئے پیشرو بن گئے ، چناچہ نابت کی اولاد بھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوگئی اور ان کے مشہور بت ” ذوالشری “ ” لات “ ” منات “ ” ہبل “ ” عمیانس “ اور ” حریش “ تھے (کتاب الاصنام) صدیوں تک نبطی بت پرستی کی اس گمراہی میں مبتلا رہے کہ مسیحی دور کے اوائل میں دارالحکومت (رقیم) کے اندر ایک عجیب معاملہ پیش آیا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔ “ ” مسیحی مذہب کا ابتدائی دور ہے نبطی حکومت کے اطراف یعنی شام وغیرہ میں عیسائیت کا زور ہے کہ ” رقیم “ کی چند نوجوان سعید روحیں شرک سے بیزار اور نفود ہو کر توحید کی جانب مائل ہوجاتی ہیں اور دین عیسوی کو قبول کرلیتی ہیں ۔ شدہ شدہ یہ بات بادشاہ وقت تک بھی پہنچ جاتی ہے بادشاہ نوجوانوں کو دربار میں بلاتا ہے اور انکشاف کرتا ہے ، نوجوان کلمہ حق بلند کرتے ہیں اور بہت بیباک اور جری ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ بات بادشاہ کو ناگوار گزرتی ہے مگر وہ دوبارہ معاملہ پر غور کرنے کے لئے ان کو چند روز کی مہلت دیتا ہے یہ دربار سے واپس آکر آپس میں مشورہ کرتے ہیں طے پاتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ کسی پہاڑ کے غار میں پوشیدہ ہوجانا چاہئے تاکہ مشرکوں کے شر سے محفوظ رہ کر عبادت الہی میں مشغول رہ سکیں ، یہ سوچ کر وہ ایک غار میں پوشیدہ ہوجاتے ہیں ، جب وہ غار میں داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر نیند طاری کردیتا ہے اور وہ خواب ہی کی حالت میں کروٹیں بدلتے رہتے ہیں ، غار کی بھی عجیب کیفیت ہے کہ اندر سے بہت وسیع ہے مگر قدرت نے اس کو ایسا موقع نصیب کیا ہے کہ زندگی کی بقاء کے قدرتی سامان وہاں سب موجود ہیں ایک طرف دہانہ ہے تو دوسری طرف ہوا گزرنے کے منفذ اور سوراخ ہیں جن کی وجہ سے ہر وقت تازہ ہوا اندر آتی جاتی رہتی ہے ۔ غار شمال وجنوب رویہ ہے اس لئے طلوع و غروب کے وقت آفتاب کی تپش اندر نہیں پہنچ پاتی مگر ہلکی ہلکی روشنی برابر پہنچتی رہتی ہے اور ایسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ نہ تاریکی ہی ہے کہ کچھ نظر آئے اور نہ اتنی روشنی ہے کہ کھلے میدان کی طرح جگہ روشن ہوجائے ، اسی حالت میں چند انسان اس غار میں خواب آلود ہیں اور ان کا رفیق کتا اپنے الگے ہاتھ پھیلائے غار کے دہانہ پر باہر کی جانب منہ کر کے بیٹھا ہے ، اس مجموعی صورتحال نے ایسی کیفیت پیدا کردی ہے کہ پہاڑوں کے درمیان غار کے اندر جھانکنے والے انسان پر خوف وہراس کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور وہ لوگ کھڑے ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ “ ” برسوں تک یہ نوجوان اس حالت میں آرام کے ساتھ محفوظ رہتے ہیں کہ شہر میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے رومی عیسائی نبطی حکومت پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دشمن کو شکست دے کر اس پر قابض ہوجاتے ہیں اور اس طرح رقیم عیسائیت کے آغوش میں آجاتا ہے اب خدائی مشیت فیصلہ کرتی ہے کہ یہ نوجوان بیدار ہوں ، وہ بیدار ہوجاتے ہیں اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ ہم کتنی مدت سوتے رہے ایک نے جواب دیا کہ ایک دن اور دوسرے نے کہا یا دن کا بھی کچھ حصہ پھر کہنے لگے کہ ہم میں سے کوئی شہر جا کر کھانا لے آئے اور یہ سکہ لے جائے مگر جو بھی جائے اس لین دین کرے کہ شہر والوں کو پتہ نہ لگ سکے کہ ہم کون ہیں اور کہاں ہیں ؟ ورنہ مصیبت آجائے گی ، بادشاہ ظالم بھی اور مشرک بھی وہ یا تو شرک پر آمادہ اور بےدینی پر مجبور کرے گا یا ہم سب کو قتل کرڈالے گا اور یہ باتیں ہمارے دین و دنیا کو برباد کرنے والی ثابت ہوں گی ۔ “ ” اب نوجوانوں میں سے ایک سکہ لے کر شہر کو گیا وہاں دیکھا تو حالات بالکل بدل چکے ہیں اور نئے آدمی اور نیا طور طریقہ نظر آرہا ہے مگر پھر بھی وہ ڈرتے ڈرتے ایک باورچی کی دکان پر پہنچا اور کھانے پینے کی چیزیں خریدیں جب قیمت ادا کرنے لگا تو باورچی نے دیکھا کہ سکہ قدیم ہے ۔ اس طرح آخر بات کھل گئی اور لوگوں کو جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص کا خیر مقدم کیا اور اس عجیب و غریب معاملہ سے بہت زیادہ دلچسپی لی کیونکہ عرصہ ہوا کہ یہاں سے مشرک بادشاہوں کا دور ختم ہوچکا تھا اور یہاں باشندوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی ، اس شخص نے جب یہ حال دیکھا تو اگرچہ عیسائیت پھیل جانے سے اس کو بیحد خوشی ہوئی مگر اپنے اور اپنے رفیقوں کے لئے یہی پسند کیا کہ دنیا کے ہنگاموں سے علیحدہ رہ کر یاد خدا میں زندگی گزار دیں اس لئے کسی طرح مجمع سے جان بچا کر پہاڑ کی راہ لی اور اپنے رفقاء میں پہنچ کر سب حال کہہ سنایا ، ادھر شہریوں میں ان کی جستجو کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے آخر ان کو ایک غار میں پالیا۔ لوگوں نے اصرار کیا کہ وہ شہر چلیں اور اپنی پاک زندگی سے اہل شہر کو فائدہ پہنچائیں مگر وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنی عمر کا باقی حصہ راہبانہ زندگی کے ساتھ ہی اس غار میں گزار دیا ۔ “ ” جب ان مردان خدا راہبوں کا انتقال ہوگیا تو اب لوگوں میں چرچا ہوا کہ ان کی یادگار قائم ہونی چاہئے چناچہ ان میں جو حضرات ذی اثر اور باقتدار تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے غار پر ہیکل (مسجد) تعمیر کریں گے اور اس طرح غار کے دہانہ پر ایک عظیم الشان ہیکل تعمیر کردیا اور عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کے مطابق جب اس جوان کے پیچھے بادشاہ وقت اور پبلک کے لوگ سب آئے تو غار کے قریب پہنچ کر وہ یہ نہ معلوم کرسکے کہ جوان کس جانب چلا گیا اور جب بہت جستجو کے بعد بھی اصحاب کہف کا پتہ نہ پا سکے تب مجبور ہو کر واپس ہوگئے اور ان کی یادگار میں پہاڑ پر ایک ہیکل (مسجد) تعمیر کردی ۔ “ (البدایہ والنہایہ جلددوم) یہ عبارت نہایت محتاط انداز کے ساتھ تحریر کی گئی ہے ورنہ پرانی تفاسیر میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ بڑا عجیب ہے اگر دیکھنا منظور ہو تو تفسیر مظہری میں دیکھ لیں لیکن ہم ان روایات کو درج نہیں کر رہے تاکہ عبارت میں طول نہ ہو ۔ زیر نظر بیان میں سورة کہف کی آیت گیارہ کا ترجمہ ایک بار پھر دیکھیں آیت اس طرح (آیت) ” فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددا “۔ اور اس کا ترجمہ کیا گیا کہ ” سو ہم نے غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک (نیند کا) پردہ ڈال رکھا “۔ ہم نے آیت کے اس حصہ کا ترجمہ کیا ہے ” پس غار میں کئی برسوں تک ہم نے ان کے کان بند کر رکھے ۔ “ یعنی غار سے باہر کے لوگوں کی کوئی صدا ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی ، ترجمہ کے اس فرق سے معلوم ہوگیا ہمارے مفسرین نے ان کے غار میں رہنے کو نیند پر محمول کیا یعنی ان پر نیند طاری ہوگئی تھی اور چونکہ نیند کی حالت میں انسان کوئی آواز نہیں سنتا اس لئے اس حالت کو (ضرب علی الاذان) سے تعبیر کیا گیا ہے اور ہم نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ انہوں نے نماز کے اندر رہ کر اپنی تحریک کو جاری رکھا اور الگ تھلگ ہو کر عبادت الہی میں مصروف رہے ، اس لئے ان کے بھاگ آنے کا مقصد یہی تھا اور نکلتے وقت جو دعا انہوں نے کی تھی وہ بھی یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کام کو آسان فرما دے گا اگر یہاں رہنا دشوار ہوگیا ہے تو کسی ایسی محفوظ جگہ چلے جاتے ہیں جہاں ان لوگوں تک ہماری بات نہ پہنچے اور ان کے شرک کی داستانیں اور افعال ہمارے لئے تکلیف کا باعث نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ان کا کام قوم سے الگ تھلگ ہو کر سونا نہیں تھا بلکہ اپنی تحریک کو جاری رکھنا تھا کیونکہ یہ فطری بات بھی تھی اور مقصود ومطلوب بھی ۔ اصل یہ ہے کہ اصحاب کہف کا جو قصہ عام طور پر مشہور ہوگیا تھا وہ یہی تھا کہ وہ غار میں برسوں تک سوئے رہے اس لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ بعد کو بھی اسی طرح کی روایتیں مشہور ہوگئیں ، عرب میں قصہ کے اصل راوی شام کے نبطی تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس قصہ کی اکثر تفصیلات تفسیر کے انہی راویوں پر جا کر منتہی ہوتی ہیں جو اہل کتاب کے قصوں کی روایت میں مشہور ومعروف ہوچکے ہیں ، مثلا ضحاک اور سری ، اس لئے انہی روایتوں کی بنا پر مفسرین کا خیال نیند کی طرف چلا گیا ورنہ قرآن کریم میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کے معنی یہاں نیند کے کئے گئے ہوں اور یہ روایتیں اس پایہ کی نہیں کہ ان کو قرآن کریم کے الفاظ کی تفسیر سمجھ لیا جائے اگر کوئی شخص ان کو قبول کرتا ہے تو دوسرا ان کو رد بھی کرسکتا ہے اور اس قبول ورد سے اسلام پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ ہاں ! جو بات عوام میں مشہور ومعروف ہو اس کا ماننا اور تسلیم کرنا آسان ہے اور جو بات معروف نہ ہو اس کا منوانا اور پیش کرنا نہایت مشکل ‘ اسی لئے علمائے اسلام نے زیادہ تر یہی طرز اختیار کیا ہے کہ جو بات عوام میں مشہور ومعروف ہے اس کی ترجمانی کرکے اس کو مزید پکا کردیتے ہیں اور اس میں وہ خیرسمجھتے ہیں و اور استروں کی مالا کو گلے کا ہار بنانے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے اور اپنے دل بہلانے کے لئے بہانہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی طرف سے تو کچھ بیان نہیں کیا جو کچھ ہم نے کہا وہ وہی ہے جو فلاں فلاں نے کہا اس لئے اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے ہم پر نہیں ۔ پھر دوسروں کی ذمہ داری ہم اپنے سر کیوں لیں ؟ اسی ہوتے ہوتے ایک بات بعد میں آنے والوں کے لئے پختہ دلیل ہوجاتی ہے ۔ ” قرآن کریم نے جن باتوں کو عام لوگوں کی باتیں کہہ کر بیان کردیا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے ان باتوں کی تصدیق کردی ہے کہ یہ باتیں اس طرح واقعہ ہوئی ہیں ۔ حالانکہ قرآن کریم کے الفاظ خود یہ بتا رہے ہوتے ہیں یہاں کس بات کی تصدیق کی ہے اور کس کی تردید ؟ لیکن قصہ گو قصہ کو بیان کرتے وقت ان باتوں کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس طرح بیان کرنے سے ایک دلچسپ بات بنتی ہے یا نہیں پھر وہ وہی بات سچی تسلیم کرتے ہیں جس کی طرف لوگوں کی دلچسپی بڑھتی ہے تاکہ اس دلچسپی کے باعث فریقین کی دنیوی اغراض بھی پوری ہوں اور عوام کے ذہنوں کی ترجمانی بھی ہوجائے تاکہ عوام ان کا ساتھ دیں اور ان کی حمایت کریں ، مثلا اس قصہ کو لے لیجئے قرآن کریم نے ان کی تعداد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوگ مختلف بیان دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد کو اللہ کے سوا اب کوئی نہیں جانتا صرف اتنی بات فرمائی کہ وہ چند نوجوان تھے ، پھر لوگوں کے اختلافی اقوال کا ذکر کنے کے بعد واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” قل ربی اعلم بعدتھم “ لیکن آج بھی بڑے زور وشور سے ان کی گنتی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ قرآن کریم نے ان کے غار میں رہنے کی مدت کے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی کیونکہ یہ وضاحت طلب مسئلہ نہیں تھا لیکن لوگوں کا جملہ نقل فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ غار میں تین سو سال تک سوتے رہے اور بعض کہتے ہیں کہ 309 سال تک رہے اور بڑی وضاحت سے فرمایا کہ (آیت) ” قل اللہ اعلم بما لبثوا لہ غیب السموات والارض) ” آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت تک رہے وہی آسمان و زمین کی ساری پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے “۔ لیکن لوگوں آج بھی یہ بات معروف ہے کہ وہ غار میں تین سو سال یا ساڑھے تین سو سال سوئے رہے ۔ اس تقابل سے ہمارا مطلب فقط یہ ہے کہ یہ جو باتیں عوام میں معروف ہوتی ہیں وہ بغیر کسی دلیل کے کہی جاتی ہیں اور علماء کرام ان باتوں کی فقط ترجمانی کرتے رہتے ہیں اور حققتی حال کو بہت کم واضح کرتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ عوامی نظریات کے خلاف کوئی بات کرنا لوہے کے چنے چپانے کے مترادف ہوتی ہے اور وہ مشکل سے بھی چبائے نہیں جاسکتے ۔ قرآن کریم نے صرف یہ اشارہ دیا کہ اصحاب کہف نے اپنے ایک آدمی کو شہر میں اشیائے خوردنی خریدنے کے لئے روپیہ دے کر روانہ کیا اور تاکید کی کہ اپنی حالت اور اپنا مقام کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ، لیکن مفسرین نے عوامی سطح کی بات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ چونکہ ساڑھے تین سو سال گزر رہے تھے اس سکہ کو لہذا اس کو دیکھتے ہی لوگوں نے اس کو پکڑ لیا کہ تجھے کوئی خزانہ ملا ہے یا یہ کہ تم لوگ کون ہو اور اس استفار سے وہ پکڑ لئے گئے اور انجام کار اس کو غار تک جب لے گئے اور وہ اندر داخل ہوا تو وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور دوسرے غار والوں پر بھی اللہ نے ایسا پردہ ڈالا کہ کسی کو دیکھنے ہی نہیں دیا اور لوگ حیران و ششدر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے اور اس وقت ہمارے مفسریں یہ بات بالکل بھول گئے ابھی اوپر آیت گیارہ میں ہم نے ” گنتی کے چند سال “ جو کہے تھے اور یہاں تین سو سال کا ذکر کر رہے ہیں کیا ” گنتی کے چند سال “ تین سو سال کی مدت مدید کو بھی کہا جاسکتا ہے ، پھر آخر دونوں اقوال میں صحیح کونسا ہے اور غلط کونسا ؟ یہ یا وہ ‘ شاید آپ کہیں گے کہ آیت گیارہ میں ” گنتی کے چند سال “ صحیح ہے اور آیت 26 میں ” تین سو نوسال “ صحیح ہے کیوں ؟ اس لئے کہ لوگ اس طرح کہتے آئے ہیں ‘ سبحان اللہ ۔ قرآن کریم کے اس واقعہ کے بیان سے مقصود اصلی ان کے سوال کا جواب بھی تھا اور یہ بتانا بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کسی حال میں بھی رک نہیں سکتی بلکہ جو لوگ روکنے کوشش کرتے ہیں وہ خود اپنے وقت پر ختم ہوجاتے ہیں اور تحریک یقینا کامیاب ہوتے ہے اور یہی بات اصحاب کہف کے ساتھ بھی ہوئی جیسا کہ آیت 10 ‘ 11 میں ان کی کامیابی کی خبر سنائی گئی لیکن ہماری مفسرین نے اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ ان کی غار کا منہ بند کر کے اس طرح عمارت بنا دی کہ ان کے لئے باہر آنے جانے کا کوئی راستہ نہ رہا اور اس طرح وہ غار کے اندر ہی رہ کر مر گئے گویا کامیابی کی بجائے ناکامی کی موت مرے ۔ چونکہ تفصیلات اس قصہ کی بہت لمبی ہیں ہمارے پاس نہ وقت ہے نہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے ان الفاظ پر اس کو ختم کر رہے ہیں کہ ” قرآن کریم کی تفسیر کے لئے جو مقصد تھا وہ بہت کم لوگوں نے یاد رکھا اور ان باتوں کی بہت لمبی چوڑی تشریح شروع کردی جن کی امت کو ضرورت نہ تھی اور جن باتوں کی ضرورت تھی ان پر بہت کم دھیان دیا ۔ “ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ کی توفیق بخشے کہ وہی ہے جو انسانوں کی لغزشوں سے در گزر کرنے والا ہے ۔
Top