Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور تیرے پروردگار نے جو وحی تجھ پر کی ہے اس کی تلاوت میں لگا رہ ، اللہ کی باتیں کوئی بدل نہیں سکتا اور تجھے اس کے سوا کوئی پناہ کا سہارا ملنے والا نہیں
آپ کتاب اللہ میں لگے رہیں اور یقین جانیں کہ اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں : 29۔ لوگ باتیں کرتے ہیں رہتے ہیں اور گزشتہ باتوں میں افراط وتفریط کا احتمال یقینی ہے جو باتیں آپ کو بتائی گئی ہیں خصوصا ان لوگوں کے متعلق جو اصحاب کہف کے نام سے معروف ہیں وہ تو حقیقت ہے اور ان کو اس آیت میں بیان کردیا ہے جس رنگ میں وہ معرض وجود میں آئیں لیکن جب لوگ ان کو سنیں گے تو کیا وہ تصدیق کردیں گے نہیں جن لوگوں نے پہلے تہیہ کیا ہو کہ فلاں کی بات کو ہم نہیں تسلیم کریں گے تو وہ تسلیم نہیں کرسکتے ، سوال کرنے والے ضروری نہیں کہ اس وجہ سے سوال کریں کہ ہمیں حق اور ناحق کا پتہ چل جائے بلکہ کوئی بات ان کے دماغ کے خانہ میں محفوظ ہوئی جو انہوں نے کہیں سے سن کر اس کو محفوظ کرلیا ہے اب جب وہ کسی دوسرے سے پوچھتے ہیں تو دراصل ان کا مقصد امتحان کرنا ہوتا ہے اور وہ تصدیق اس وقت کرتے ہیں جب ان کے ذہن کی ترجمانی کی جائے اگر ان کی سنی ہوئی بات کے ذرا بھی کچھ خلاف ہوا تو وہ جھٹ انکار کردیں گے ، کوئی پوچھے کہ کیا تم اس وقت پاس تھے جب وہ واقعہ ہوا تھا لیکن ایسا سوال کون کرے گا اور کون اس کو تسلیم کرے گا لہذا ہوتا یہی ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی سنی ہوئی بات کے پیچھے لگا رہتا ہے اور اس کو صحیح کرنے کے لئے دلیلیں گھڑتا اور پیش کرتا رہتا ہے یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے ، آپ اے رسول ﷺ اس بات کو یاد رکھیں جو آپ ﷺ کو بتائی گئی اور اس کتاب کو پڑھ کر سناتے رہیں اور یہ خیال میں رکھیں کہ اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں جو کچھ آپ ﷺ کو سنایا گیا وہ حق ہے اور آپ ﷺ کی اپنی تحریک کا بھی بالکل وہی انجام ہوگا اس لئے کہ وہ بھی ہمارے پروگرام سے شروع ہوئی ہے اور انجام کار اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے باقی سب پناہ گاہیں عارضی اور فانی ہیں (ملتحدا) ایک طرف مائل ہونے کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جس سے انسان پناہ چاہتا ہے اس کی طرف مائل ہوتا ہی ہے لہذا اللہ کی ذات کی طرف مائل ہونے والے کا مائل ہونا ہی صحیح اور درست ہے کیونکہ اس کی ذات کے سوا کوئی صحیح جائے پناہ نہیں اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے ۔
Top