Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 30
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور نہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک اِنَّا : یقیناً ہم لَا نُضِيْعُ : ہم ضائع نہیں کریں گے اَجْرَ : اجر مَنْ : جو۔ جس اَحْسَنَ : اچھا کیا عَمَلًا : عمل
مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو جس نے اچھے کام کیے ہوں ہم کبھی اس کا اجر ضائع نہیں کرتے
بلاشبہ ایمان لانے والوں کا اجر بھی ان کو پورا پورا دیا جائے گا : 33۔ دنیا میں ہرچیز کی پہچان اس کی ضد سے ہوتی ہے اگر ضد نہ رہے تو کسی چیز کا کوئی وجود باقی نہ رہے ، دوزخ اور اس کی سختیوں کا ذکر کیا گیا تو جب تک اس کے ساتھ اس کی ضد جنت اور اس کی نعمتوں کا بیان نہ ہو اس پہلی بات کی تکمیل ممکن نہیں ۔ یہی معاملہ ہر جگہ پر ہے ، قرآن کریم جب ایک کا ذکر کرتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے کا ذکر بھی کردیتا ہے ، گزشتہ آیت میں ان لوگوں کا بیان تھا جو حق اور سچ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور پھر ان کی سزا کا بھی ذکر کردیا کہ اس دنیا میں تو وہ و ڈیرے اور عزت و تکریم کے مالک بنے بیٹھے ہیں لکنی آخر کب تک ؟ جو کچھ وہ کر رہے ہیں آخر ان کا نتیجہ بھی تو ایک روز ان کے سامنے آئے گا پھر اس نتیجہ سے ان کو اس دنیا میں واقف بھی کرا دیا ۔ زیر نظر آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جنہوں نے حق کو حق مانا اور تسلیم کیا اس لئے جھوٹ کے نگہبانوں اور محافظوں نے ان کی سخت مخالفت کی جس کے نتیجہ میں ان کو بہت سختیاں برداشت کرنا پڑیں لیکن انہوں نے ان سختیوں کو بخوشی برداشت کیا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو یہ سختیاں برداشت کرنے کے نتیجہ سے واقف نہ کیا جائے ، یہاں بتایا گیا کہ ان کے ان صالح اعمال کے نتیجہ کو بھی ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ پورا پورا ان کی طرف لوٹایا جائے گا پھر آنے والی آیت میں اس کی مزید وضاحت فرما دی کہ وہ کیا ہوگا ۔
Top