Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 44
هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ١ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا۠   ۧ
هُنَالِكَ : یہاں الْوَلَايَةُ : اختیار لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْحَقِّ : برحق هُوَ : وہ خَيْرٌ : بہتر ثَوَابًا : ثواب دینے میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر عُقْبًا : بدلہ دینے میں
یہاں سے معلوم ہوگیا کہ سارا اختیار اللہ ہی کے لیے ہے ، وہی ہے جو بہتر ثواب دینے والا ہے اور اسی کے ہاتھ بہتر انجام ہے
کوئی سمجھنا چاہے تو سمجھ سکتا ہے کہ اختیار کل صرف اور صرف اللہ ہی کے پاس ہے : 47۔ ایسے ہی حالات وواقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فی الحقیقت سارا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ، کیونکہ جب اس کی طرف سے گرفت آتی ہے تو سارے سامان ‘ سارا اقتدار ودھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور جو ہونا ہوتا ہے وہ ہوجاتا ہے ، فرعون کے پاس کس چیز کی کمی تھی ؟ لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی تو اس کے کام کوئی چیز آئی ؟ اس طرح آج اگر مکہ والے سمجھتے ہیں کہ اقتدار ‘ عزت اور مال واولاد ان کے پاس ہے اس لئے ان کا جتھا بہت مضبوط ہے تو سنت اللہ بھی یہی چلی آرہی ہے کہ جب کوئی اپنے جتھے کو مضبوط سمجھ کر حدود سے متجاوز ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے پکڑتا ہے کہ تجاوز کرنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور قانون الہی اپنا کام کرجاتا ہے ۔ (الولایۃ) بالفتح کے معنی کارسازی وانصرام امور کے ہیں اور (ولایہ) بالکسر کے معنی مددونصرت کے ہیں اس جگہ (الولایۃ) بالفتح ہی ہے گویا مطلب یہ ہے کہ کارسازی اور انتظام امور حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور وہ اپنے بندوں کی آزمائش کے لئے چھوٹ دیتا رہتا ہے اور اگر بندہ اس قدر تجاوز کرجائے کہ وہ خود ہی سب کچھ بن بیٹھے تو پھر گرفت اس پر لازم ہوجاتی ہے اور یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ نصرت اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے کیونکہ دنیا دار طاقتور آخر اپنی طاقت کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتا اور نہ ہی اپنی ہلاکت کو طاقت سے بچا سکتا اور نہ ہی اپنی ہلاکت کو طاقت سے بچا سکتا ہے اور اس طرح بھی کہ اللہ تعالیٰ سے ہی ولایت اور دوستی کا تعلق کام آتا ہے ، جس طرح اس دونوں باغ کے مالک کی مثال سے واضح کیا گیا کہ جب تک اللہ نے چاہا کہ وہ بناتا رہے جو وہ بنانی چاہتا ہے تو وہ طرح طرح کی باتین بناتا رہا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آگئی تو وہ سب کچھ برباد ہو کر رہ گیا جس پر وہ نازاں تھا ۔
Top